کس قسم کا مارشل لاء ضروری تھا؟
تیسرا سوال، اور نہایت اہم سوال جس سے عدالت نے سرے سے کوئی تعرض ہی نہیں کیا ہے۔ یہ ہے کہ ۶؍مارچ کی دوپہر تک کے حالات، جو مارشل لاء نافذ کرنے کے موجب ہوئے۔ فی الواقع کس نوعیت کے مارشل لاء کے متقاضی تھے؟ خود لاہور ہائیکورٹ کا ایک اجلاس کامل، جس میں جسٹس منیر اور جسٹس کیانی دونوں شریک تھے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کے مقدمے میں یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ مارشل لاء کے لئے ’’ضرورت‘‘ کے سوا اور کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔ نیز اس فیصلے میں وہ خود مارشل لاء کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے یہ بتا چکے ہیں کہ ایک قسم کا مارشل لاء وہ ہے جس میں دیوانی اقتدار (Cicil Rule) کی امداد کے لئے فوج آتی ہے اور صرف امن قائم کر کے چلی جاتی ہے اور دوسری قسم کا مارشل لاء وہ ہے جس میں فوج پورے نظم ونسق کے اختیارات (انتظامی، عدلی اور تشریعی، Legislative) اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حالات جن میں مارشل لاء کی ’’ضرورت‘‘ پیش آئی تھی۔ ان دونوں قسموں میں سے کس قسم کے مارشل لاء کا تقاضا کر رہے تھے؟ اگر بات صرف اتنی ہی تھی کہ بدنظمی وبدامنی کا طوفان پولیس اور مجسٹریٹی کے قابو سے باہر ہوگیا تھا تو ظاہر ہے کہ ضرورت پہلی قسم کے مارشل لاء کے لئے داعی ہوسکتی تھی۔ لیکن اگر ریاست ’’بجائے خود‘‘ کے خلاف کوئی بغاوت ہوگئی تھی اور ریاست کا اقتدار اپنے تمام شعبوں میں الٹ پھینکا گیا تھا تو البتہ دوسری قسم کے مارشل لاء کا جواز پیدا ہو سکتا تھا۔ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر بحث کرنے اور فیصلہ دینے کی ضرورت تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اسے چھوا تک نہیں گیا۔
قانون دان طبقہ اس بات سے بے خبر نہیں ہوگا کہ انیگلوسکیسن نظام قانون، جو اس وقت ہمارے ملک میں رائج ہے اور جس کی پیروی ہماری عدالتیں کر رہی ہیں۔ اس مسئلے میں کیا کہتا ہے۔ ہم محض اپنے قارئین کی یاد دہانی کے لئے اس نظام قانون کے چند اماموں کی رائیں یہاں نقل کرتے ہیں۔ ڈائسی لکھتا ہے: ’’مارشل لاء اپنے پورے اصطلاحی معنوں میں جن میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ عام ملکی قانون معطل کر دیا جائے اور ایک ملک کی یا اس کے کسی حصے کی حکومت عارضی طور پر فوجی عدالتوں کے ذریعہ سے چلائی جائے۔ قانون انگلستان کے لئے ایک انجانی چیز ہے۔‘‘ (Law of the Constitiution. 9th Edition. P-287)