یعنی یہ کہ یہاں کے عوام معاملات کو سمجھنے اور صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہیں معلوم نہیں ہے کہ اپنا ووٹ کس طرح استعمال کریں۔ اس لئے یہاں جمہوریت کا یہ اصول نہیں چل سکتا کہ لیڈر یا تو عوام کے فیصلے کی پابندی کرے۔ نہیں تو منصب اقتدار سے دست بردار ہو جائے۔ اگر ہم دل سے چاہتے بھی ہوں کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق دے لیں تو اس کے لئے کوئی اسلوب ہاتھ نہیں آتا۔ نہ خود رپورٹ کے الفاظ سے کوئی مدد حاصل ہوتی ہے۔
ہم ان مواقع پر سے گذرتے ہوئے صرف اس لئے تشویش محسوس کرتے ہیں کہ ہماری ایک تاریخی عدالتی رپورٹ کو جب بیرونی دنیا میں پڑھا جائے گا اور خیرخواہانہ نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ ناقدانہ اور مخالفانہ نقطۂ نظر سے پڑھا جائے گا تو پورے ملک کے بارے میں عجیب وغریب آراء قائم کی جائیں گی۔
جمہوری قدروں کے خلاف اظہار رائے
جمہوریت کے متعلق رپورٹ کے نظریات کی ایک ہلکی سی جھلک اوپر دیکھی جاچکی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف اس حد تک نہیں رہا ہے۔ جمہوریت کی بیشتر اہم قدریں یہاں بری طرح پامال ہوگئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم تین چیزوں کو لیتے ہیں۔
جمہوریت کی اہم ترین، بلکہ بنیادی قدروں میں سے ایک ذمہ دارانہ حکومت ہے۔ یعنی یہ کہ انتظامی حکومت (Executive) عوام کے نمائندہ وزراء کے ماتحت رہے اور یہ وزراء عوام کی منتخب کردہ مقننہ (Legislature) کے سامنے اور بالآخر اپنے رائے دہندوں کے سامنے جواب دہ ہوں۔ ایک غیرجمہوری نظام کا اصلی اور بنیادی عیب جس کی بناء پر آخر کار دنیا جمہوریت کو ترجیح دینے پر مجبور ہوئی۔ یہ ہے کہ اس میں انتظامی حکومت مطلق العنان ہوتی ہے۔ ملک کے عوام کی خواہشات کو نظر انداز کر کے من مانی کارروائیاں کرتی ہے اور عوام جب اپنی شکایت کی تلافی یا اپنے مطالبات کی تکمیل کے لئے کوئی جدوجہد کرتے ہیں تو وہ بات بات پر اسی پولیس اور فوج کو لاکر عوام سے لڑا دیتی ہے۔ جس کو تنخواہیں اور گولی بارود انہی عوام کی جیب سے وصول کئے ہوئے۔ ٹیکسوں سے دی جاتی ہیں۔ یہ چیز اخلاقی حیثیت سے بھی غلط ہے اور اس کے نتائج بھی برے نکلتے ہیں۔ قومی فوج اور پولیس کا خود قوم ہی سے بار بار تصادم اور بات بات پر تصادم، عقل اور اخلاق ہی کے اعتبار سے ناجائز نہیں ہے۔ بلکہ یہ باشندگان ملک کے جذبہ حب وطن اور قومی ریاست کے استحکام کی جڑکاٹ ڈالنے والی چیز ہے۔ باشندوں کے لئے ایسی صورت