سے حاصل کر لیں تو کون سا ذریعہ ہے جو اس کی تلافی کر سکے گا۔ اب تو جو کوئی بھی رپورٹ کو پڑھے گا وہ یہ سمجھے گا کہ لیجئے علماء کے تصور کی اسلامی ریاست میں سرے سے لیجسلیچر ہی غائب ہے۔
غیرمسلموں کی حیثیت
دوسرا مسئلہ جسے اس رپورٹ میں ایک جگہ نہیں جگہ جگہ چھیڑا گیا ہے اور بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی حیثیت کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ رپورٹ کی شہادت کے مطابق عدالت کے نزدیک سرظفر اﷲ خاں کی علیحدگی اور کلیدی مناصب سے قادیانی افسروں کو ہٹائے جانے کا مطالبہ اسی مسئلے پر مبنی ہے اور اس کی جڑ کاٹنے کے لئے اس کی جڑ کاٹنا ضروری ہے۔ عدالت نے اس مقصد کو متعدد مقامات پر خود ظاہر کر دیا ہے۔
اس صریح مقصد کو نگاہ میں رکھ کر وہ ایک جگہ علماء سے پوچھتے ہیں کہ ایک اسلامی ریاست میں غیرمسلم رعایا کی پوزیشن کیا ہے؟ کیا وہ قوانین کے بنانے اور نافذ کرنے میں حصہ لے سکتے ہیں؟ کیا وہ حکومت کے عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں؟ کیا صدر ریاست اپنے اختیارات کا کوئی حصہ انہیں سونپ سکتا ہے؟ پھر جب ان سوالات کا جواب نفی میں ملتا ہے تو آگے چل کر دوسری جگہ وہ اس کا خوفناک نتیجہ ہمارے سامنے لاکر رکھتے ہیں کہ پھر غیرمسلم بھی اپنے ہاں مذہبی حکومت قائم کریں گے اور اپنی مسلمان رعایا کو یہی پوزیشن دے کر انہیں حکومت میں حصہ لینے کے تمام حقوق سے محروم کریں گے۔ بلکہ ہندوستان میں تو مسلمان شودر اور ملیچھ بن کر رہیں گے اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں ۳۰کروڑ مسلمانوں کا کام بس لکڑیاں کاٹنا اور پانی بھرنا رہ جائے گا۔ آخر میں ایک مقام پر پہنچ کر وہ بڑے زور کے ساتھ علماء کو یہ الزام دیتے ہیں۔
’’علماء نے ہم سے صاف صاف کہہ دیا کہ ان کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ مسلمانوں کا دوسرے ملکوں میں کیا حشر ہوتا ہے۔ بشرطیکہ ان کے اپنے ٹھپے کا اسلام یہاں رائج ہو جائے۔ یہ بات کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تو کیا ذرا سی جھجک تک نظر نہ آئی۔ اس کی محض ایک مثال کے لئے امیرشریعت کا یہ قول ملاحظہ ہو کہ بقیہ ۶۴کروڑ مسلمان (تعداد ان کی اپنی دی ہوئی ہے) اپنی قسمت کی آپ فکر کریں۔‘‘ (ص۲۹۹)
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت کے اپنے ٹھپے کا اسلام بھی وہی کچھ ہے جو علماء کے ٹھپے کا اسلام ہے۔ خلافت راشدہ کے بارے میں وہ خود کہتے ہیں کہ اس کی مجلس شوریٰ میں کفار شامل نہیں کئے جاسکتے تھے۔ خلیفہ اپنے اختیارات کا کوئی حصہ کسی کافر کو نہیں سونپ سکتا تھا۔ کوئی غیرمسلم کسی اہم عہدے پر مقرر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قانون سازی مین ان کا شریک ہونا یا قانون کی