ٹوکری میں پھینک دوں گا۔ استغفراﷲ! خاک بدہن یہ جرأت؟ اﷲتعالیٰ اہل اسلام کو ایسے بے باکانہ انداز حیات سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین!
مرزاغلام احمد قادیانی مثیل مسیح موعود کیسے؟
مرزاقادیانی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ میں وہ مسیح نہیں ہوں جو کہ بنی اسرائیل کی طرف نبی ہوکر آئے تھے۔ کیونکہ وہ تو فوت ہوچکے ہیں۔ ہاں ان کا کوئی مثیل بموجب احادیث صحیحہ ضرور آئے گا اور وہ میں ہی ہوں۔ مجھے مسیح علیہ السلام کے ساتھ مشابہت تامہ ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ (ازالہ اوہام ج۲ ص۶۸۲، خزائن ج۳ ص۴۶۸) پر آپ لکھتے ہیں۔ وہ مسیح جس کے آنے کا قرآن مجید میں وعدہ کیاگیا ہے۔ وہ یہ عاجز ہے اور (کتاب ص۶۸۶، خزائن ج۳ ص۴۷۰) پر ہے۔ سو مسیح موعود جس نے اپنے تئیں ظاہر کیا۔ وہ یہی عاجز ہے۔ اسی طرح کتاب (تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۱، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۲) پر ہے اور کتاب (مصفی ج۲ ص۶۲۸، بحوالہ اشتہار مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ) پر بھی ہے۔ کتاب (براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳ حاشیہ) پر ہے۔ اس عاجز (مرزاقادیانی) کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے۔ کتاب (کشتی نوح ص۴۹، خزائن ج۱۹ ص۵۳) پر ہے۔ اس مسیح کو ابن مریم سے ہر ایک پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ پس اب دیکھنا ہے کہ مرزاقادیانی کو واقعی مسیح علیہ السلام کے ساتھ مشابہت تامہ حاصل ہے یا کہ معاملہ برعکس ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی سیرت اوپر بیان کی گئی ہے۔ جس سے مرزاقادیانی کورے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام بلاباپ پیدا ہوئے اور مرزاقادیانی کے باپ کا نام غلام مرتضیٰ ہے۔ مسیح نے مہد میں باتیں کیں۔ (تریاق القلوب ص۴۱، خزائن ج۱۵ ص۲۱۷) اور مرزاقادیانی نے نہیں کیں۔ حضرت مسیح کی بیوی نہ تھی۔ (رسالہ ریویو بابت ماہ اپریل ۱۹۰۲ء ص۱۲۴) اور مرزاقادیانی کی شادی ہوئی اولاد ہوئی۔ مسیح کی آل نہ تھی۔ (تریاق القلوب ص۹۹ حاشیہ، خزائن ج۱۵ ص۳۶۳، مواہب الرحمن ص۷۶، خزائن ج۱۹ ص۲۹۵) بقول مرزاقادیانی مسیح علیہ السلام ساڑھے بتیس سال میں پھانسی پر چڑھائے گئے تھے۔ (تحفہ گولڑویہ طبع ثانی ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ ص۳۱۱) اور مرزاقادیانی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ حضرت مسیح ناصری کی ذات مبارک جملہ امراض سے پاک تھی اور مرزاقادیانی بیمار تھے۔
(رسالہ ریویو آف ریلیجنز بابت ماہ مئی ۱۹۲۷ء ص۲۶) پر ہے کہ مرزاقادیانی دوران سر،درد سر، کمی خواب، تشنج دل، بدہضمی، اسہال، کثرت بول اور مراق وغیرہ تھا۔ حضرت مسیح میں محض جمالی رنگ تھا۔ مرزاقادیانی اپنے متعلق (نزول المسیح ص۱۲۷، خزائن ج۱۸ ص۵۰۵) پر لکھتے ہیں کہ آدم کی