الہام کے متعلق بھی روایات ہیں۔ جن مین سے دو درج ذیل ہیں۔ ’’راوی کہتا ہے میں نے امام رضا علیہ السلام سے کہا مجھے بتائیے کہ امام کوکب پتہ چلتا ہے کہ وہ امام ہے۔ جب اس کو یہ خبر ہوتی ہے کہ امام سابق مر گیا۱؎ یا موت کے وقت ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ فرمایا موت کے وقت ہی میں نے کہا کیسے؟ فرمایا اﷲ اس کو الہام کرتا ہے۔‘‘ (الشافی ترجمہ اصول کافی ج۱ ص۴۶۱)
فرمایا امام جعفر صادق علیہ السلام نے آیا تم جانتے ہو کہ لمبی مصیبت کیسے کوتاہ ہو جاتی ہے۔ فرمایا جب خدا کی طرف سے کسی کو دعا کا الہام ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ بلاکوتاہ ہوگئی۔
(الشافی ترجمہ اصول کافی جلد دوم ص۴۷۰)
ایک اور روایت ہے: ’’راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آئمہ علیہم السلام جیسے ہیں۔ مگر وہ نبی نہیں ہیں… ان کے علاوہ جتنی فضیلتیں اور خصوصیتیں آنحضرتﷺ کو دی گئی ہیں ان سب میں آئمہ۲؎ علیہم السلام رسول اﷲﷺ کے ساتھ شریک۳؎ ہیں۔‘‘ (الشافی ترجمہ اصول کافی ج۱ ص۳۱۰)
مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ کے ماخذ
جیسا کہ آپ روایات تشیع ملاحظہ فرماچکے۔ ختم نبوت کی مہر توڑنے کے لئے اس کے مقابل امامت ومحدثیت کا دروازہ کھولاگیا اور سلسلہ وحی کو جاری رکھنے کے لئے کشف والہام کے دروازے کھولے گئے۔ جن سے دعویٰ نبوت کے روشن امکان پیدا ہوگئے۔ چنانچہ مرزاغلام احمد
۱؎ قرآن حکیم وہ امام ہے جسے کوئی موت نہیں، کوئی فنا نہیں قیامت کے بعد بھی اسی کے احکام کے مطابق فیصلے ہوںگے۔ (مؤلف)
۲؎ یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات اپنے آئمہ کو ’’رضی اﷲ‘‘ کی بجائے علیہ السلام کہتے ہیں اور انہیں کی تقلید میں مرزائی مرزاغلام احمدقادیانی کو بھی علیہ السلام کہتے ہیں۔ کیونکہ مرزاغلام احمد قادیانی بھی یہی کہتا ہے کہ: ’’اس واسطہ کو ملحوظ رکھ کر اور اس (محمد مصطفیٰﷺ) میں ہوکر اور اس کے نام محمدؐ اور احمدؐ سے مسمی ہوکر میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۷، خزائن ج۱۸ ص۲۱۱) حالانکہ حضورﷺ نے فاروق اعظم سیدنا عمرؓ کو بھی محدث فرمایا ہے۔ مگر مسلمان انہیں ’’رضی اﷲ‘‘ ہی کہتے ہیں۔ کیونکہ علیہ السلام صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ (مؤلف)
۳؎ اہل تشیع نے قرآن جیسے امام آخرالزمان اور ناطق کتاب اﷲ کو قرآن صامت اور اپنے آئمہ کو قرآن ناطق کا عقیدہ اختراع کیا۔ (مؤلف)