تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب بعد نزول شریعت محمدی پر عمل کریں گے تو ان کی رسالت کیونکر جاتی رہے گی؟
فرض کرو ایک جرنیل دوسرے جرنیل کی کمان میں کسی خاص ڈیوٹی پر لگایا گیا ہو تو اس جرنیل کے عہدے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں اتنا ضرور ہوتا ہے کہ جس جرنیل کے ماتحت یہ جرنیل ہوتا ہے،۔ اس کی عالی شان ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعد نزول جب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی شریعت کی متابعت کریں گے اور دین اسلام کی امداد کریں گے اور اپنا وعدہ جو روز میثاق میں کر چکے ہیں اسے وفا کریں گے۔ ان کی اپنی نبوت ورسالت بدستور بحال رہے گی۔
جیسا کہ شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے دن انبیاء کے زمرے میں بھی حشر ہوگا اور اولیاء کے زمرے میں بھی۔‘‘
یہ کام تو ان کی فضیلت کا باعث ہے کہ آنحضرتﷺ کی امت کے اولیاء کرام میں بھی ان کا حشر ہوگا اور یہ ان کی اپنی دعا کا نتیجہ ہے۔ (دیکھو انجیل برنباس فصل ۲۱۲ ص۲۹۴)
’’اے رب بخشش والے اور رحمت میں تو اپنے خادم (عیسیٰ) کو قیامت کے دن اپنے رسول (محمدؐ) کی امت میں نصیب فرما۔‘‘
حاصل یہ کہ ایک نبی دوسرے نبی کی متابعت کرے تو اس کی اپنی نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ آنحضرتﷺ نے ملت ابراہیمی میں اتباع فرمائی تو کیا آپ کی نبوت جاتی رہی؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت خاتم النبیینؐ کی اتباع سے کیوں جاتی رہے گی؟
حضرت خاتم النبیینﷺ نے فرمایا کہ: ’’اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو میری پیروی کے سوا ان کا چارہ نہ ہوتا۔‘‘
اس حدیث سے بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک نبی کی دوسری نبی کی اتباع سے نبوت نہیں جاتی۔
پیغام صلح کا حدیث رسول سے انکار
مرزائی ہفت روزہ ’’پیغام صلح‘‘ کے مدیر حدیث: ’’اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کو بھی بجز میری اتباع کے چارہ نہ تھا۔‘‘ کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت کے خلاف ہے۔ اس لئے اس کو رسول کریم کا قول تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
(پیغام صلح مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۶۸ئ)