گول میز کانفرنس شملہ
میں مسٹر جناح نے تقسیم ملک کی بڑی وجہ یہ پیش کی تھی کہ گائے ایک قوم کا خدا ہے اور دوسری قوم کی خوراک ہے۔ لہٰذا یہ دونوں قومیں اکٹھی کس طرح رہ سکتی ہیں۔ اس پر ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اب اس اصول کو یہاں لیجئے۔ نبوت کمال بشریت کا آخری درجہ ہے۔ نبی سے بڑھ کر خدا کا کوئی مقرب نہیں۔ جب ایک قوم کے نبی کو دوسری قوم دجال وکذاب کہے تو ان کے اجتماع کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اسی لئے مطالبہ کیاگیا ہے کہ عیسائیوں وغیرہ کی طرح مرزائیوں کو بھی اقلیت قرار دیا جائے۔
چند باتیں یہاں اور قابل توجہ ہیں
اوّل… یہ کہ دوسری جماعتوں کے آپس میں خواہ کتنے اور کیسے ہی اختلافات ہوں۔ مگر ان میں سے کوئی بھی اسلامی حکومت پرکفر کی حکومت کو ترجیح نہیں دیتا۔ بخلاف اس کے مرزائیت یہ چاہتی ہے کہ کفر کی حکومت برقرار رہے۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی لکھتے ہیں: ’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح کر سکتا ہوں نہ مدینہ میں۔ نہ روم میں نہ شام میں۔ نہ ایران میں نہ کابل میں۔ مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لئے دعا کرتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۷۰، مورخہ ۲۲؍مارچ ۱۸۹۰ئ)
الفضل ۱۳؍ستمبر ۱۹۱۴ء میں ہے: ’’سنو! انگریز کی سلطنت تمہارے لئے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لئے ایک برکت ہے اور اس خدا کی طرف سے وہ سپر ہے۔ پس تم دل وجان سے اس سپر کی قدر کرو اورہمارے مخالف جو مسلمان ہیں۔ ہزارہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں۔‘‘
اسی پرچہ میں آگے چل کر لکھا ہے: ’’سچے احمدی بدوں کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لئے فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔‘‘
ان عبارات کا مطلب واضح ہے کہ مرزائیت کے لئے کسی مملکت اسلامیہ میں جگہ نہیں۔ اسی لئے کہیں کفر کی حکومت کو سایہ رحمت ایزدی بتلایا جارہا ہے اور کہیں اس کے اقبال اور ترقی کے لئے دعائیں ہورہی ہیں۔ آخر یہ کیوں؟ یا تو اس لئے کہ نئی نبوت کا اسلام میں وجود ہی نہیں۔
یا اس لئے کہ اس میں اسلامی معاشرے کی تخریب قطع برید اور ملک میں انتشار وبدامنی کے خطرات اس قدر ہیں کہ کوئی اسلامی حکومت اس کو برداشت نہیں کر سکتی۔