۱… خاتَمَ النبیین۔
۲… خاتمِ َالنبیین۔
۳… ولکن نبیاً خَتَمَ النَبیین۔ ملاحظہ ہو تفسیر مدارک وغیرہ۔
عربی زبان میں خاتَم اور خاتِم کے دو معنی آتے ہیں۔ آخری سے اور مہر۔ اگر یہاں پہلا معنی مراد ہو تو مطلب واضح ہے کہ رسول اﷲﷺ آخری نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی اور اگر دوسرے معنی ہوں تو مہر سے مراد ایسی مہر ہوگی۔ جیسے کسی شے کو بند کر کے اس پر مہر لگادی جاتی ہے۔ اس صورت میں بھی مطلب وہی ہوگیا کہ آپؐ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے اور تیسری قرأت اس کی مؤید ہے۔ کیونکہ ختم النبیین کے دو معنی ہیں۔
ایک یہ کہ آپؐ نے نبیوں کو ختم کردیا۔
دوسرا یہ کہ آپؐ نے نبیوں کو مہر لگادی۔
دوسرا معنی یہاں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس صورت میں یہاں تین چیزیں چاہئیں۔ ایک مہر، ایک مہر لگانے والا۔ ایک جس پر مہر لگائی جاتی ہے۔
جب آپؐ مہر لگانے والے ہوئے تو خود مہر نہ ہوئے۔ حالانکہ پہلی دو قرأتوں میں آپؐ کو مہر کیاگیا ہے۔ پس یہ معنی پہلے دو معنوں کے خلاف ہوا۔ اس لئے پہلا مراد ہوگا۔ تاکہ تینوں قرأتوں کا مطلب ایک ہو جائے۔ یعنی پہلی دو قرأتوں کی رو سے آپؐ چونکہ مہر ہیں اور مہر لگنے سے معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپؐ نبیوں کو ختم کرنے والے ہوئے اور یہ مہر خدا کی طرف سے لگائی گئی۔ اس لئے خدا مہر لگانے والا ہوا۔
۳… پھر بخاری، مسلم میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے انبیاء علیہم السلام کو ایک مکان سے تشبیہ دی۔ جس میں ایک اینٹ کی کمی ہے اور فرمایا کہ میں بھی وہی اینٹ ہوں۔ ’’ختم بی النبیون‘‘ {میرے ساتھ نبی ختم کئے گئے} اس طرح کی اور بھی بہت سی احادیث میں اس سے بھی معلوم ہوا کہ آپؐ کے ساتھ نبوت ختم ہوگئی۔ آپؐ تصدیق کی مہر نہیں۔ جیسے مرزائیوں کا خیال ہے۔
۴… حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے۔ ’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ {میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔} اس حدیث میں حضرتﷺ نے خاتم النبیین کا معنی آپؐ بیان فرمادیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ پس آپؐ کا بیان فرمودہ معنی سب پر مقدم ہے۔ اس کے مقابلہ میں کسی معنی کا اعتبار نہیں۔