عرضیوں پر لگائے جاتے ہیں۔ جو قادیانی عدالتوں میں دائر ہوتی ہیں۔ قادیان میں ایک والنٹیر کور کے موجود ہونے کی شہادت گواہ نمبر۴۰ مرزاشریف احمد نے دی ہے۔
عبدالکریم کی مظلومی اور محمد حسین کا قتل۱۹۲۹ء
سب سے سنگین معاملہ عبدالکریم (ایڈیٹر مباہلہ) کا ہے۔ جس کی داستان ’’داستان درد‘‘ ہے۔ یہ شخص مرزاقادیانی کے مقلدین میں شامل ہوا اور قادیان میں جاکر مقیم ہوگیا۔ وہاں اس کے دل میں (مرزائیت کی صداقت کے متعلق) شکوک پیدا ہوئے اور وہ مرزائیت سے تائب ہوگیا۔ اس کے بعد اس پر ظلم وستم شروع ہوا۔ اس نے قادیانی معتقدات پر تبصرہ وتنقید کرنے کے لئے مباہلہ نامی اخبار جاری کیا۔ مرزابشیرالدین محمود نے ایک تقریر میں جو دستاویز ڈی۔زیڈ (الفضل مورخہ یکم؍اپریل ۱۹۳۰ء میں درج ہے) مباہلہ شائع کرنے والوں کی موت کی پیش گوئی کی ہے۔ اس تقریر میں ان لوگوں کا بھی ذکرکیاگیا ہے۔ جو مذہب کے لئے ارتکاب قتل پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ اس تقریر کے بعد جلد ہی عبدالکریم پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ لیکن وہ بچ گیا۔ ایک شخص محمد حسین جو اس کا معاون تھا اور ایک فوجداری مقدمہ میں جو عبدالکریم مباہلہ کے خلاف چل رہا تھا۔ اس کا ضامن بھی تھا۔ اس پر حملہ ہوا اور قتل کر دیا گیا۔ قاتل پر مقدمہ چلا اور اسے پھانسی کی سزا کا حکم ملا۔
محمد حسین کے قاتل کا رتبہ مرزائیوں کی نظر میں
پھانسی کے حکم کی تعمیل ہوئی اور اس کے بعد قاتل کی لاش قادیان میں لائی گئی اور اسے نہایت عزت واحترام سے بہشتی مقبرہ میں دفن کیاگیا۔ مرزائی اخبار ’’الفضل‘‘ میں قاتل کی مدح سرائی کی گئی۔ قتل کو سراہا گیا اور یہاں تک لکھا گیا کہ قاتل مجرم نہ تھا۔ پھانسی کی سزا سے پہلے ہی اس کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی اور اس طرح وہ پھانسی کی ذلت انگیز سزا سے بچ گیا۔ خدائے عادل نے یہ مناسب سمجھا کہ پھانسی سے پہلے ہی اس کی جان قبض کر لے۔
مرزامحمود کی دروغ گوئی
عدالت میں مرزامحمود نے اس کے متعلق بالکل مختلف داستان بیان کی اور کہا کہ محمد حسین کے قاتل کی عزت افزائی اس لئے کی گئی کہ اس نے اپنے جرم پر تأسف وندامت کا اظہار