آیات کون کھرچ کر مٹا سکتا تھا۔ جن میں کہاگیا ہے کہ: ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘ {تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں} اور ’’ماکان لمؤمن ان یقتل مؤمنا الاخطأ‘‘ {کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ دوسرے مسلمان کو قتل کرے۔ الایہ کہ غلطی سے یہ حرکت اس سے سرزد ہو جائے۔} اور ’’من یقتل مؤمنا متعمداً فجزاؤہ جہنم خلداً فیہا وغضب اﷲ علیہ ولعنہ واعدلہ عذاباً عظیما‘‘ {جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے۔ اس کے لئے جہنم ہے۔ جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اﷲ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے لئے اﷲ نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔} قرآن کی یہی تعلیمات توہیں جن کی بدولت مسلمان اپنی ساری بدبختیوں اور نالائقیوں کے باوجود مسلمان کا خون بہانے میں کبھی اتنے دلیر نہ ہوسکے۔ جتنے عیسائی، عیسائیوں کا خون بہانے میں ہوئے ہیں اور اسلامی برادری کا یہی احساس تو تھا جس کی بدولت انتہائی جہالت اور اخلاقی انحطاط کے باوجود انگریز، فرانسیسی، اطالوی اور دوسرے ظالم آقا اپنے مسلمان غلاموں کی فوج کو مسلم ممالک کے خلاف اس زورشور سے کبھی استعمال نہ کر سکے۔ جس سے وہ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ کیا اب چاہا یہ جاتا ہے کہ یہ ذرا سا بند جو ابھی تک لگا ہوا ہے۔ یہ بھی ٹوٹ جائے۔ تاکہ مسلمان اور مسلمان اس انتہائی جوش وطنیت کے ساتھ آپس میں لڑیں جو جرمنی اور فرانس کی لڑائیوں میں پایا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں دنیا بھر کا روایاتی معمول یہ ہے کہ جو نظریاتی وتواریخی عوامل کسی گروہ میں عملاً کام کرنے والے موجود ہوتے ہیں۔ وہ بجائے خود معلوم رہتے ہیں اور ان میں نہ کسی کو مخاطب کر کے اعلان کیا جاتا ہے اور نہ کسی سے ان کا اقبال کرایا جاتا ہے۔ وقت آنے پر وہ عوامل بہرحال اپنا عمل کرتے ہیں اور ان کے عمل کے مطابق حکومتیں اپنا رویہ تجویز کرتی ہیں۔
اسلامی ریاست میں فنون لطیفہ کا حشر
بحث کو ختم کرتے ہوئے عدالت نے دو مسئلے اور لئے ہیں۔ پہلا مسئلہ فنون لطیفہ کا ہے۔ جن کے بارے میں مولانا عبدالحلیم قاسمی کی شہادت سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے: ’’اسلامی ریاست کے دوسرے حوادث میں سے ایک یہ ہے کہ تمام مجسمے، تاش کے کھیل، مصوری، انسانی ہستیوں کے فوٹو، موسیقی، ناچ، مخلوط ایکٹنگ، سینما اور تھیٹر بند کر دینے پڑیں گے۱؎۔‘‘
(رپورٹ ص۲۳۰)
۱؎ اوپر کی دو سطریں اپنے اثر کے لحاظ سے مسٹر کلاس کو اسلامی نظام کے خلاف تیار کرنے میں ہر قسم کے عقلی استدلال سے زیادہ کامیاب ثابت ہو سکتی ہیں۔