حکومت وقت سے دھوکا
پہلی جنگ عظیم جو ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئی اور پانچ سال تک جاری رہی۔ اس جنگ کے دوران میں حکومت انگلشیہ نے عوام سے قرضہ لینے کا اعلان کیا۔ جس کی وصولی کے لئے ڈاکخانہ سے کیش سرٹیفکیٹ اجرا کئے جاتے تھے۔ تمام افسران ضلع کو ہدایت تھی کہ وہ اپنے اثرورسوخ سے قرضہ وصول کریں۔ بڑے افسر جب دورہ پر جاتے تو ڈاکخانہ سے پوچھتے کہ یہاں کے لوگوں نے کتنے روپے کے کیش سرٹیفکیٹ خریدے ہیں۔ قادیان میں کسی متنفس نے کوئی کیش سرٹیفکیٹ نہ خریدا۔ کچھ عرصہ کے بعد ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور نے اپنی منزل قادیان میں رکھی۔ مرزائیوں کو یہ معلوم ہوا تو ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین نے جو ان دنوں انچارج دفتر محاسب تھے۔ قریباً پانچ ہزار کے کیش سرٹیفکیٹ دفتر محاسب کے نام کے خرید لئے۔ جو ڈپٹی کمشنر کے آنے پر اسے بڑے فخر سے دکھائے گئے۔ مگر اس کی واپسی کے چند روز بعد ان کا روپیہ وصول کر کے خزانہ دفتر محاسب میں داخل کر دیا۔ جو قوم اپنے پروردگار سے ایسا دھوکا کرے۔ اس پر کسی اور شریف آدمی کو کیا اعتبار ہوسکتا ہے۔ بہرحال گندم نما جو فروشی میں انہوں نے کمال کی انتہاء کر دی۔ سیدھے سادھے مسلمانوں کے دین وایمان اور جیبوں پر شریفانہ ڈاکہ زنی میں انہیں خاصی مہارت حاصل ہے ؎
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ سلطانی بھی عیاری ہے درویشی بھی عیاری
قادیان سے ربوہ
یہ ایک مشہور روایت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے ایک مینار سے ہوگا۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے قادیان کو دمشق سے تشبیہ دی اور مینار سے یہ تاویل کی کہ عیسیٰ علیہ السلام صاحب مینارہ ہوںگے۔ عبادت گاہ کا نام تو انہوں نے اقصیٰ رکھ ہی لیا تھا۔ اب سوال تھا مینار کا۔ چنانچہ انہوں نے اقصیٰ میں مینارہ کی بنیاد بھی رکھ دی۔ عبادت گاہ کے مشرق کی طرف جدہر مینارہ شروع کیا۔ ہندو برہمنوں کے چند مکانات تھے۔ جن میں ایک مکان ایک ہندو ڈپٹی کا بھی تھا۔ اس نے حکومت میں درخواست گذاری دی کہ اس مینار کے بننے سے ہمارے تمام گھر بے پردہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا اسے روک دیا جاوے۔ چنانچہ حکومت نے مرزاقادیانی کی اس پیشین گوئی میں رکاوٹ ڈال دی اور اس کی تعمیر بند ہوگئی۔ مرزامحمود کے وقت میں مرزائیوں نے ہندوؤں کو تنگ کرنا شروع کیا۔ چونکہ ان غریب ہندوؤں کے کچے مکانات کی چھتیں مسجد کی تہ زمین