مدیر پیغام صلح نے اشارہ تو کیا ہے۔ مگر اس شخصیت کا نام ذکر نہیں کیا کہ وہ متبع دین محمدی کون ہے؟ جس کے مقابلے میں کوئی نصرانی آنے کی جرأت نہیں کر سکتا؟ اگر ان کی مراد مرزاغلام احمد قادیانی ہوں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا: ’’میرے آنے کے دو مقصد ہیں۔ مسلمانوں کے لئے! یہی کہ وہ سچے مسلمان ہوں اور عیسائیوں کے لئے کسر صلیب ہوں اور ان کا مصنوعی خدا نظر نہ آئے۔ دنیا ان کو بھول جائے۔‘‘ (اخبار الحکم مورخہ ۱۷؍جولائی ۱۹۰۵ئ)
میں پوچھتا ہوں کہ:
٭…
کیا مرزاقادیانی اپنے مندرجہ مقاصد میں کامیاب ہوئے؟
٭…
کیا مسلمان صحیح معنی میں مسلمان بن گئے؟
٭…
کیا شرک وبدعت اور بداعمالی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟
٭…
کیا عیسائی، الوہیت مسیح اور تثلیث سے تائب ہوکر مسلمان ہوگئے ہیں؟ اگر یہ سارے کام پورے ہوچکے ہیں تو پھر مدیر پیغام صلح اپنے اسی شمارے میں اسی صفحے پر یہ واویلا کیوں کرتے ہیں کہ: ’’عیسائی مشزی ادارے انڈونیشیا میں بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں اور سینکڑوں کو عیسائی بنا رہے ہیں۔‘‘
اگر صورتحال یہی ہے تو پھر قادیانی مسیح کے حق میں کیا یہ کہنا موزوں نہ ہوگا ؎
کوئی بھی کام مسیحا ترا پورا نہ ہوا
نامرادی ہی میں ہوا ہے ترا آنا جانا
حاصل کلام یہ کہ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہو کر الوہیت مسیح اور عیسائیت کا خاتمہ کریں گے۔ وہاں جھوٹے مثیل مسیح اور بزور نبی بننے والوں کی پردہ دری بھی یقینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو مسیح علیہ السلام سے چڑ پیدا ہوگئی ہے۔ جونہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات یا نزول کا تذکرہ ہوتا ہے۔ قصر مرزائیت میں زلزلہ آجاتا ہے۔
خاتم النبیینﷺ اور انبیاء سابقین علیہم السلام
قادیانی مرزائی الفرقان ربوہ اپنی اشاعت ماہ مارچ ۱۹۶۹ء میں تنظیم اہل حدیث کے ایک مضمون پر تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ’’جب سب نبی حضرت خاتم النبیینﷺ کی امت میں ہیں تو آپؐ کے ایک امتی نبی کی وجہ سے ختم نبوت کا ٹوٹنا کیونکر لازم آسکتا ہے۔‘‘