مظہر ہیں کہ تقریر نے سامعین پر ایسا ہی اثر ڈالااور مقرر کی لسانی سے متاثر ہوکر انہوں نے کئی بار جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سامعین نے اس وقت کیوں مرزائیوں کے خلاف کوئی تشددانہ اقدام نہ کیا؟ اگرچہ فریقین کے تعلقات عرصہ سے اچھے نہ تھے۔ مگر اس تقریر نے راکھ میں دبے ہوئے شعلوں کو ہوا دے کر بھڑکایا۔
تقریر کی قابل اعتراض نوعیت فرد جرم میں جن سات فقروں کو قابل گرفت قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے تیسرا اور ساتواں سب سے زیادہ قابل اعتراض ہیں۔ ان میں اپیلانٹ نے مرزائیوں کو برطانیہ کے دم کٹے کتے کہا ہے۔ میرے نزدیک دوسرے حصے دفعہ ۱۵۳۔الف تعزیرات ہند کے ماتحت قابل گرفت نہیں ہیں۔ پہلا حصہ یعنی فرعونی تخت الٹا جا رہا ہے۔ میرے نزدیک قابل اعتراض نہیں۔ دوسرے حصے کا تعلق مرزاقادیانی کی خوراک اور غذا سے ہے۔ اس کے متعلق یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرزائے اوّل نے اپنے مریدوں میں سے ایک کے نام چٹھی لکھی تھی۔ جس میں ان کی خوراک کی یہ تمام تفصیلات درج تھیں۔ یہ خطوط کتابی شکل میں چھپ چکے ہیں اور ان کے مجموعہ کا ایک مطبوعہ نسخہ اس مثل میں بھی شامل ہے۔
شراب اور مرزا
معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی ایک ٹانک استعمال کرتا تھا۔ جس کا نام پلومر کی شراب تھا۔ ایک موقعہ پر اس نے اپنے مریدوں میں سے ایک کو لکھا کہ پلومر کی شراب لاہور سے خرید کر مجھے بھیجو۔ پھر دوسرے خطوط میں یاقوتی کا تذکرہ ہے۔ مرزامحمود نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس کے باپ نے ایک دفعہ پلومر کی شراب دوائً استعمال کی۔ چنانچہ میرے نزدیک یہ حصہ بھی قابل اعترض نہیں۔ چوتھے حصہ میں مرزاقادیانی کے امتحان میں ناکام ہونے کا تذکرہ ہے۔ چٹھے حصہ میں مرزاقادیانی پر لابہ گوئی اور کاسہ لیسی کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاپلوسی اور لابہ گوئی پیغمبر کی شان کے خلاف ہے۔
عدالت کا تبصرہ
میری رائے میں تیسرے اور ساتویں حصہ کے سوا اور کوئی حصہ تقریر کا قابل گرفت نہیں۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ مرافعہ گزار تمام تقریر میں صرف وہ حرف قابل اعتراض ہیں۔ تقریر