دیکھئے! کیسا صاف فیصلہ فرمایا ہے کہ متنازعہ فیہ امر میں فیصلہ کرنے والی فقط دو چیزیں ہیں۔ ایک اﷲتعالیٰ کا کلام پاک، قرآن مجید اور دوسری حدیث پاک، تیسری کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ اور سب دلیلیں ان دونوں کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ پھر کس قدر اس پر تنبیہ فرماکر اس کو مستحکم کیا ہے کہ اگر تم اﷲتعالیٰ اور قیامت کو مانتے ہو تو فیصلہ کن صرف دو ہی امر ہیں۔ پس انہی دو سے فیصلہ کرو۔ ورنہ تم ایمان دار نہیں۔ بہرصورت ثابت ہوا کہ مسلمان بحیثیت مسلمان ہونے کے اس صریح اور ناطق فیصلے سے گریز نہیں کر سکتا۔ جب کبھی امر متنازعہ فیہ میں فیصلہ لے گا تو انہی دو سے لے گا۔
مرزاقادیانی بانی ٔ فرقہ مرزائیہ کا نظریہ
اشتہار ۱۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء میں مرزاغلام احمد قادیانی لکھتے ہیں: ’’میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائکہ اور لیلتہ القدر وغیرہ سے منکر بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
’’میں اسلامی عقائد کو مانتا ہوں۔ اہل سنت وجماعت کے ہاں جو چیزیں اور عقائد قرآن وحدیث کی رو سے ثابت ہیں۔ ان سب کو مانتا ہوں اور آنحضرتﷺ ختم المرسلین کے بعد اور کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو پکا کافر جانتا ہوں۔‘‘ خلاصہ یہ کہ ہر امر میں قرآن وحدیث فیصلہ ناطق ہے۔ پس (ایام صلح ص۸۷، خزائن ج۱۴ ص۳۲۳) میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی وعملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو کہ اہل سنت وجماعت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں۔ ان سب کا ماننا فرض ہے۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۶۶)
مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’یاد رہے کہ ہمارے مخالفین کے صدق وکذب کو آزمانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات وحیات ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگر وہ درحقیقت قرآن کریم کی رو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔ اب قرآن درمیان ہے اس کو سوچو۔‘‘
(تحفہ گولڑویہ ص۱۰۲، خزائن ج۱۷ ص۲۶۴)