ہیں۔ مسجد کا معاملہ سب مسلمانوں کا مشترکہ تھا۔ اسے پارٹی کا سوال بنانا خلاف دانش تھا۔ خصوصاً ایسی حالت میں کہ ایک مضبوط جماعت اس کام کو سرانجام دینے کے لئے بنائی جاچکی ہو۔ لیکن اندر ہی اندر ہمارے خلاف زہر پھیلانی شروع کر دی گئی۔ حالانکہ اس عرصہ میں مولانا ظفر علی خاں صاحب سے فاش غلطیاں ہوئیں۔ انہوں نے جلسہ عام میں عدالتی طور پر انہدام مسجد کے سلسلے میں حکم امتناعی حاصل کرنے کا مسلمانوں کی طرف سے اختیار حاصل کیا۔ لیکن عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔ بلکہ ڈپٹی کمشنر کے وعدے پر اعتماد کر لیا اور اس طرح مسلمانوں کو قانونی طاقت سے محروم کر دیا۔ مسلمانوں کو قانونی طور پر بے بس کر کے شرارت پسند سکھوں اور ان کی امداد کرنے والی قوتوں کو مسجد کے شہید کرنے کا موقعہ مہیا کر دیا۔ پھر سکھ لیڈر مسلمانوں سے مسجد کے معاملہ میں باعزت سمجھوتے کے خواہاں تھے۔ مگر مولانا ظفر علی خاں نے اسلام کے مفاد کے خلاف صاف انکار کر دیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو مسجد انہدام سے بچ جاتی۔ لیکن ان کے ذہن میں بھی بات ان کے دوستوں نے ڈالی تھی کہ کوئی کارنامہ ایسا کر کے دکھاؤ کہ احرار مات کھا جائیں؟ ان کے پیش نظر مسجد کو بچانا نہ تھا۔ بلکہ احرار کو گرانا تھا۔ اس لئے سرکاری درباری لوگوں نے بھی مولانا کی ہر قدم پر حوصلہ افزائی کی۔ کیونکہ احرار کا عروج ان کی موت تھا۔ اپنی زندگی کے لئے وہ احرار کو مارنا ضروری سمجھتے تھے۔ سرمایہ دار جماعتوں کا عروج سرمایہ دار برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن غریبوں کا اقبال سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ یہ دنیا دار ایمان بیچ کر مفلسوں کا خون نچوڑ کر دولت جمع کر تے ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں میں اثر ورسوخ بڑھاتے ہیں۔
مسجد شہید اور حکام
حکام جو صوبے کے امن کے ذمہ دار تھے۔ ان کی پوزیشن اور بھی مضحکہ خیز تھی۔ اگر وہ صاف طور پر ارادہ کرتے تو مسجد کو انہدام سے بچا سکتے تھے۔ کیا کوئی قوم حکومت کے اقتدار سے باہر تھی؟ حکومت انگریزی کو اپنے اثر اور طاقت پر ناز رہا ہے۔ حکومت نے نہ صرف متکبرانہ لاپروائی برتی۔ بلکہ شرارت پسندوں کو مواقع اور سہولتیں بہم پہنچائیں۔ کیا حکومت خود مسجد کو پولیس اور فوج کے ذریعے محفوظ نہ کر سکتی تھی؟ کیا یہ واقعہ نہ تھا کہ باوجود سکھ ڈیپوٹیشن کے گورنر پنجاب سرہربرٹ ایمرسن کو یقین دلانے کے کہ ان کا ارادہ مسجد گراے کا نہیں۔ پھر بھی مسجد کو محفوظ نہ کیاگیا؟ گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کی ورکنگ کمیٹی گورنر سے کئے گئے وعدہ کی تصدیق کرنے کے لئے جمع ہوئی تھی کہ انہیں اطلاع ملی کہ مسجد راتوں رات منہدم ہوگئی۔ پر بندھک کمیٹی نے پھر بھی منہدم کرنے والوں کو