ہے۔ ’’ولما قدم مکۃ اتاہ اصحاب الصلب ای الذی یجمعون العظآم ویستخرجون ودکھا ویاقدمون بہ‘‘ یعنی جب آپ مکہ معظمہ میں آئے تو آپ کے پاس اصحاب صلب آئے۔ یعنی وہ لوگ جو کہ ہڈیوں کو جمع کرتے ہیں اور چکنائی اور شوربا نکالتے تھے۔ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ قاموس کا مفہوم صرف چکنائی کا نکالنا اور شوربا نکالنا ہے۔ اس لئے کہ صلب کا معنی چربی اور اصحاب الصلب کا معنی چربی نکالنے والے نہ یہ کہ صلب کا معنی ہڈی توڑنا ہے اور اس خیال سے بھی صلب کا معنی ہڈی توڑنا نہیں ہوسکتا کہ چربی اور چکنائی وغیرہ بغیر ہڈی توڑنے کے نکل نہیں سکتی۔ ورنہ چاہئے کہ ایسی ہر چیز کو صلب کہا جائے۔ جس کے بغیر چربی اور چکنائی نہ نکل سکے۔ جیسے ذبح اور موت طبعی وغیرہ اور جب کہ صلب کا اطلاع ذبح اور موت طبعی پر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کو صلب کا معنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تو ہڈی توڑنا بھی صلب کا معنی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پس ثابت ہوا کہ صلب کا معنی صرف خون اور پیپ وچربی کا نکالنا ہے اور قبل از قتل کسی شخص کو مصلوب کہنا مجازی طور پر ہوتا ہے۔
لفظ قتل
لسان العرب میں ہے۔ ’’قتلہ اذا اماتہ بضرب او حجر اوسم اوعلۃ‘‘ اس نے اس کو قتل کر دیا۔ جب کہ ضرب زہر وغیرہ سے اس کی موت واقع کر دی۔ تاج العروس میں اس کے قریب ہے۔ مفردات امام راغب میں ہے۔ ’’اہل القتل ازالۃ الروح عن الجسد‘‘ اصل معنی قتل کے یہ ہیں کہ روح کو جسم سے علیحدہ کر دیا جائے۔ مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ قتل کا اصل معنی جان سے ماردینا ہے۔ کسی چیز سے ہو۔ لہٰذا جان سے ماردینے کے بغیر اگر کسی معمولی ضرب میں اطلاق کیا گیا تو معنی مجازی ہوگا۔ مگر یاد رہے کہ گو قتل کا وضعی اور اصل معنی جان سے ماردینے کا ہے اور عند الاطلاق یہی مراد ہوگا۔ مگر جب کہ کوئی خارجی امر اصلی معنی لینے سے مانع ہوا تو مجازی معنی ہی مراد ہوںگے۔ جیسا کہ آیت قتلوہ میں مجازی معنی قتل کا ہے۔
تشبیہ
تشبیہ یہ ہوتی ہے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ کسی مناسبت کی وجہ سے دل میں مشابہت دینا۔ جیسے کہا جائے کہ زید بہادری میں مثل شیر ہے تو زید کو ایک نسبت یعنی بہادری کی وجہ سے شیر کے ساتھ ہم نے مشابہت دی ہے اور جس جگہ مشابہت ہوتی ہے وہاں چار چیزیں