میں یہ دعویٰ کرنے کی ہمت نہیں تھی کہ فائرنگ اندھادھند نہیں ہے۔ گورنر اور وزراء میں سے بھی کوئی اس کا انکار نہ کر سکا۔ اس کا وزن اسی لئے محسوس کیاگیا کہ یہ مبنی برحقیقت اور جائز احتجاج تھا۔ مگر اس رپورٹ کے مطالعہ سے تاثر یہی ہوتا ہے کہ یہ احتجاج اندھا دھند فائرنگ پر نہیں بلکہ تشدد کرنے والے مجمعوں پر مجرد فائرنگ کرنے کے خلاف تھا۔ ایسی حقیقت کی تعبیر کا یہ ذرا سا جھول معاملے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے اور متعلقہ شخص اور جماعت کی پوزیشن کی تصویر کو پڑھنے والے کے سامنے کتنی مختلف شکل میں نمایاں کرتا ہے۔ حقیقت کی اس تعبیر پر رپورٹ کے مباحث کی بنا رکھی گئی ہے۔ اسے عدالت کے سہو نظر پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال عدالت بھی عام انسانی افراد پر مشتمل تھی۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا کہ ایسے سہو بہت سے افراد اور اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا موجب ہو جاتے ہیں اور ان کا ازالہ آسانی سے نہیں ہوسکتا۔
کچھ تضاد
رپورٹ کے اندر متعدد ایسے نظریات وخیالات بھی درج ملتے ہیں جن کو ایک متوسط ذہن کا آدمی بھی باہم دگر متضاد محسوس کر سکتا ہے اور ان کے بے جوڑ پن کو کسی تاویل سے رفع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم چند عبارتوں کو ترتیب وار نقل کرتے ہیں۔ جن کو باہم دگر ہم تطبیق نہیں دے سکے اور نہ اس معاملے میں رپورٹ سے کوئی مدد پاسکے ہیں۔
۱… ’’اگر جماعت اسلامی مطالبات کی حمایت ان وجوہ سے کر رہی تھی جو معاشرتی اور سیاسی عوامل میں پائے جاتے ہیں تو اس کے لئے صاف اور سیدھا راستہ یہ تھا کہ وہ ایک دستوری جہدوجہد میں مشغول ہوجاتی اور دستور ساز اسمبلی کو اپنے نقطۂ نظر سے متفق کرنے کی کوشش کرتی یا آئندہ انتخابات کا انتظار کرتی اور اسی مسئلے پر انتخاب لڑلیتی۔‘‘ (ص۲۳۴)
۲… ’’خواجہ ناظم الدین نے (۱۶؍اگست ۱۹۵۲ء کو مجلس عمل کے ایک وفد سے ملاقات کے موقع پر) کہا کہ احمدیوں کو ایک غیرمسلم اقلیت قرار دینے یا نہ دینے کا مسئلہ دستور ساز اسمبلی کے طے کرنے کا مسئلہ ہے اور میں وہاں اس کے متعلق کوئی تحریک پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔‘‘ (ص۱۲۹)
۳… ’’دوسرا نکتہ جو صاف طور پر اس ریزولیوشن (یعنی صوبائی مسلم لیگ پنجاب کے ۲۷؍جولائی ۱۹۵۲ء والے ریزولیوشن) اور ان تقریروں (یعنی مسٹر دولتانہ کی پسرور، حضوری