مرزاقادیانی اور معیار تفسیر قرآن مجید
(کتاب برکات الدعاء ص۱۸،۱۹، خزائن ج۶ ص۱۸،۱۹) پر ہے کہ: ’’قرآن مجید کی ایک آیت کے معنی معلوم کریں تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ان معنوں کی تصدیق کے لئے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں۔‘‘
۲… ’’دوسرا معیار رسول اﷲﷺ کی تفسیر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سب سے زیادہ قرآن کے سمجھنے والے ہمارے پیارے اور بزرگ نبی حضرت محمدﷺ تھے۔ پس اگر آنحضرتﷺ سے کوئی تفسیر ثابت ہو جائے تو مسلمان کا فرض ہے کہ بلاتوقف اور بلادغدغہ تسلیم کرے۔ نہیں تو اس میں الحاد اور زندقہ فلسفیت کی رگ ہو گی۔ تیسرا معیار تفسیر صحابہؓ کی تفسیر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابہ کرامؓ آنحضرتﷺ کے نوروں کو حاصل کرنے والے اور علم نبوت کے پہلے وارث تھے اور خداتعالیٰ کا ان پر بڑا فضل تھا اور نصرت الٰہی ان کی قوت مدرکہ کے ساتھ تھی۔‘‘
۴… ’’چوتھا معیار تفسیر خود اپنا نفس مطہر لے کر خود قرآن کریم میں غور کرنا ہے۔‘‘
۵… ’’پانچواں معیار تفسیر لغت عرب بھی ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دئیے ہیں کہ چنداں لغت عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں۔‘‘ الحمدﷲ! کہ مرزاقادیانی نے اہل سنت وجماعت کے مقرر کردہ معیاروں سے چار تسلیم کر لئے ہیں۔ صرف تابعین کی تفسیر کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ یہ بھی لکھا ہے کہ تفسیر بالرائے سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر کی اور اپنے خیال سے کی، اچھی کی، تب بھی اس نے بری تفسیر کی۔ قرآن مجید کے معافی ومطالب سب سے زیادہ قابل قبول ہوںگے۔ جن کی تائید قرآن مجید کی دوسری آیات سے ہوتی ہو۔ یعنی شواہد قرآنی سے۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اوّل ص۴تا۷ اور تفسیر ترجمان القرآن للطائف البیان ج۱ ص۱۵تا۱۷) پر قرآن مجید کے اصول تفسیر ملاحظہ ہوں۔
۱… قرآن کی تفسیر قرآن مجید سے، کیونکہ قران کی ایک آیت ایک جگہ مجمل ہوتی ہے اور دوسری جگہ مفصل۔ جو تفسیر قرآن حکیم کی آنحضرتﷺ نے کی ہے وہ ہر چیز پر مقدم ہے۔ بلکہ وہی ساری امت پر حجت ہے۔ اس کے خلاف کرنا یا کہنا ہرگز جائز نہیں۔ اس کی تقلید