ہوا کہ دراصل ہمارا خاندان فارسی خاندان ہے۔ سو اس پر ہم پورے یقین سے ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کی حقیقت جیسا کہ اﷲتعالیٰ کو معلوم ہے۔ کسی دوسرے کو ہرگز معلوم نہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۲ ص۱۷ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۳۶۵)
اور اہل فارس ہونے کے متعلق مزید فرماتے ہیں کہ: ’’میرے پاس فارسی ہونے کے لئے بجز الہام۱؎ الٰہی کے اور کچھ ثبوت نہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۹، خزائن ج۱۷ ص۱۱۶)
لیکن نبی کا دعویٰ کرنے اور سلسلہ وحی ونبوت کو جاری کرنے، حج بیت اﷲ کو ترک کرنے اور جہاد کو منسوخ کرنے والے کو اہل فارس ہی سے ہونا چاہئے تھا۔ کیونکہ حضورﷺ کے نامہ مبارک کو اگر کسی نے پھاڑا تو اہل فارس نے، حضرت فاروق اعظمؓ کو شہید کیا تو اہل فارس نے، حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کیا تو اہل فارس نے، حضرت علیؓ کو مدینتہ الرسول چھوڑ کر کوفہ جانے پر مجبور کیا تو اہل فارس نے، اور کیا کچھ نہ کیا اہل فارس نے۔ اس لئے کذاب نبی کے لئے مرزاغلام احمد قادیانی کا ’’اہل فارس‘‘ ہونا ضروری امر تھا۔ ان سے قبل اہل فارس میں سے بہاء اﷲ نے بھی حج بیت اﷲ کو ترک کیا اور جہاد فی سبیل اﷲ کو حرام قرار دیا۔ اپنی الوہیت کا دعویٰ کیا اور قرآن جیسی لاریب کتاب کے احکام کو منسوخ کرنے کے لئے اپنی ’’کتاب اقدس‘‘ کو پیش کیا تھا۔
بقول اہل فارس حضرت علیؓ اور سلمانؓ فارسی دونوں محدث تھے
شیعہ حضرات کی معتبر کتاب حیات القلوب میں ملاباقر مجلسی تحریر فرماتے ہیں: ’’شیخ
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) کہ ان کی بیوی شہربانو جو حضرت علی بن الحسینؓ کی والدہ تھیں۔ جن سے باقی آئمہ کا سلسلہ چلا وہ شاہ فارس یزد جرد کی بیٹی تھی۔ حالانکہ خاندان کا حسب نسب والد سے چلتا ہے والدہ سے نہیں۔ ’’آئمہ خود را از نسل شہربانو دختر یزدجرد رساندہ واغلب پادشاہاں رابدعویٰ انتساب بخاندان ساسانی راداشتہ است۔‘‘ اور اپنے اماموں کے نسب کو یزدجرد کی بیٹی شہربانو کی نسل سے شمار کیا اور بہت سے بادشاہوں کو انتساب کے دعویٰ میں ساسانی خاندان سمجھا۔
۱؎ اور آگے کبھی ان روایات میں یہ ہوتا کہ چودھویں صدی میں جو مجدد اور محدث آئے گا۔ اس کا تعلق اہل یونان سے ہوگا۔ تو مرزاقادیانی کو فوراً یہ الہام ہوتا کہ ان کے آباؤ اجداد خواہ برلاس مغل ہیں۔ لیکن وہ یونان سے آئے تھے اور وہ یونانی ہیں۔ اس لئے مجدد ہیں۔ (مؤلف)