معاشیات وغیرہ میں سے کسی کے دائرے میں بھی کوئی علمی وفنی ماہر اس پوزیشن میں آکر اپنے نظریات وتصورات کی صحیح اور مکمل ترجمانی کرنے پر قادر ہوسکتا ہے کہ وہ تو گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا ہو اور دوسری طرف ’’اصحاب تحقیق‘‘ عدالت کی کرسی پر تشریف فرما ہوں۔ سوالات کی جو رودگاہ اصحاب تحقیق کی طرف سے بنادی جائے۔ جوابات کو بالکل انہی کی حدود میں بہنا ہو۔ مثلاً تھوڑی دیر کے لئے فرض کیجئے کہ اگر یہی پیش نظر ترتیب بدل جائے اور علماء عدالت کی کرسی پر ہوں اور کچھ دوسرے لوگ سیکولرزم، جمہوریت، کمیونزم یا کسی دوسرے نظریہ ونظام کی وضاحت کے لئے ان کے سامنے گواہوں کے کٹہرے میں لائے جائیں تو اس طرح ان گواہوں کے خیالات کی جو تصویر مرتب ہو کر خود ان کے سامنے رکھی جائے گی کیا وہ واقعی ان کے ذہن کے خدوخال پیش کرنے کے لحاظ سے پوری طرح ایک مطابق حقیقت تصور ہو سکے گی۔
اس طریقہ سے تحقیقات کر کے یہ معلوم کیاگیا ہے کہ جس دینی سیاسی نظام کو علماء ’’اسلام‘‘ کہتے ہیں وہ کیا ہے اور جس اسلامی ریاست کا تصور وہ پیش کرتے ہیں وہ کس نوعیت کی ریاست ہے۔ اس بحث میں عدالت نے جن جن مسائل کو جس ترتیب سے لیا ہے۔ ہم بھی ان کو اسی ترتیب سے لے کر ان پر گفتگو کریں گے۔
قانون سازی اور مجلس قانون ساز
پہلا سوال جو اس سلسلۂ میں چھیڑا گیا ہے۔ یہ ہے کہ آیا اسلام میں قانون سازی اور مجلس قانون ساز کی کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔ عدالت کی اپنی رائے اس باب میں یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جس چیز کو مجلس قانون ساز کہتے ہیں وہ اسلامی نظام کے لئے ایک اجنبی چیز ہے۔ لہٰذا جونہی کہ یہاں ایک اسلامی ریاست قائم ہو۔ ایک شخص اٹھ کر پارلیمنٹ کے پاس کئے ہوئے کسی قانون کو سپریم کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کر سکتا ہے کہ اسلام تو سرے سے ایک قانون ساز ادارے کا قائل ہی نہیں ہے۔ پھر یہ پارلیمنٹ کیسی؟ اس رائے کے دلائل عدالت نے خود دئیے ہیں۔ مگر اس کے لئے سہارا مولانا ابوالحسنات کے اس قول سے لیاگیا ہے کہ قانون ساز ادارہ اسلامی ریاست کا کوئی جزو نہیں ہے اور مزید سہارا ’’امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘‘ کی ایک تقریر سے لیاگیا ہے۔ جو ۲۲؍اپریل ۱۹۴۷ء کے اخبار ’’آزاد‘‘ میں شائع ہوئی تھی۱؎۔ تقسیم کار اگر
۱؎ واضح رہے کہ اس موقع پر شاہ صاحب کا ذکر خاص طور پر امیرشریعت کے لقب کے ساتھ ہوا ہے۔ اس لقب کے استعمال کی معنویت کہیں یہی تو نہیں کہ اسلام کے دستوری مسائل میں شاہ صاحب ایک قوی سند کی حیثیت سے سامنے آئیں؟