سوال… جب نقل قرآن ہو یا حدیث۔ امور بالا پر موقوف ہے اور وہ چونکہ سب کے سب ظنی ہیں تو احتمال مجاز وغیرہ کا بھی ہوسکتا ہے تو قرآن، احادیث کسی امر کی قطعیت کا کب مفید ہو سکیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اگر ثابت بھی ہو جائے تو قطعی طور پر نہ ہوگی۔
جواب… جب ایسے امور وقرائن موجود ہوں جن کی وجہ سے یقین کا فائدہ حاصل ہو تو توقف اور احتمال مذکورہ کی وجہ سے نقل کی قطعیت باطل نہیں ہوتی۔ جیسے:
۱… ’’لم یحج ھو ﷺ بعد الہجرۃ الاحجۃ واحدہ‘‘ یعنی آنحضرتﷺ نے ہجرت کے بعد فقط ایک ہی حج کیا ہے۔
۲… ’’القرآن لم یعارضہ احد‘‘ یعنی قرآن مجید کا کسی نے معارضہ اور مقابلہ نہیں کیا۔
۳… ’’لم یؤذن فی العیدین والکسوف والاستسقائ‘‘ یعنی عیدین اور کسوف اور استسقاء میں آذان نہیں دی گئی۔ (شیخ طبرانی)
بہرصورت اگر سوال کو مان لیا جائے تو یہ خبریں سمعی قطعی الدلالۃ نہ رہیں گی جو کہ باطل ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قرآن وحدیث وغیرہ سے جو چیز ثابت ہوگی وہ واجب الاتباع ہوگی۔
فائدہ… جب کہ نقل وعقل ہر دو متعارض ہوں تو وہاں پر تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ دونوں قطعی، دونوں ظنی۔ ایک قطعی اور دوسری ظنی۔ تیسری صورت میں قطعی کو عقلی ہو یا نقلی، ظنی پر تقدیم حاصل ہے اور دوسری صورت میں باعتبار دلیلوں کے ترجیح دی جائے گی اور پہلی صورت فقط ایک احتمال ہی احتمال ہے۔ واقع میں اس کا وجود نہیں۔ کیونکہ دلیل قطعی اس کو کہتے ہیں جو کہ نفس الامر اور واقع میں ضروری واجب ہو۔ پس اگر دونوں ہی واقع میں ضروری اور واجب العمل ہوئیں تو اجماع نقیضین لازم آئے گا جو کہ باطل ہے اور عقلی طور پر محال اور ناممکن ہے۔ اگر کوئی ایسی صورت بظاہر نظر آتی ہو تو وہاں پر واقع میں ایک ہی ضروری اور قطعی ہو گی اور دوسری غیرقطعی۔
قرآن مجید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی
’’وما قتلوہ یقیناً بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (النسائ:۱۵۷،۱۵۸)‘‘ {اور انہوں نے یقینی طور پر اس (عیسیٰ علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا بلکہ اس کو اﷲ نے اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لیا ہے اور اﷲ غالب حکمت والا ہے۔}