بارہ ممبر ایسے تھے جو احرار کی مدد سے کامیاب ہوئے تھے۔ چونکہ وہ درمیانے اور اعلیٰ طبقے سے متعلق تھے۔ اس لئے امراء کی آواز میں ان کے لئے زیادہ کشش تھی۔ علاوہ ازیں یاد رکھنا چاہئے کہ اونچی کرسی پر بیٹھ کر غریب بھی اونچے طبقے کی سی سوچنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احرار کے سب ممبر امراء کے کان نمک میں پڑ کر نمک ہوگئے اور احرار سے تعلق توڑ بیٹھے۔ یہ صورتحال صرف اسمبلی کے الیکشنوں میں ہی نہیں ہوئی۔ بلکہ میونسپل انتخابات میں بھی یہی صورت درپیش ہوئی۔ لودھیانہ، جالندھر، لائل پور میں غریب اور درمیانہ طبقہ کے لوگوں نے احرار کے نام پر فتح پائی اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کا ٹاٹ الٹ دیا۔ لیکن جوںہی کامیاب ہوئے اور سوسائٹی میں ایک درجہ حاصل کر لیا۔ پھر کرسی نشین ہوکر خاک نشین احرار کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ یہ صرف احرار کا ہی تلخ تجربہ نہیں۔ بلکہ مجلس خلافت نے پنجاب میں الیکشن لڑے۔ گمنام لوگوں کو ممبر بنایا۔ ان لوگوں نے نامور ہوکر مجلس خلافت کی پرکاہ کے برابر پروانہ کی۔ دونوں جماعتوں کے تلخ تجربہ کی بناء ہی پر اصول وضع کرنا پڑتا ہے کہ انتخابات میں غریب جماعتیں بے حد احتیاط برتیں۔ اپنی پارٹی کے تجربہ کار اور ایثار پیشہ ممبروں کو آگے بڑھائیں۔ ہر سائل کو جماعت کا ٹکٹ نہ دیں۔ جماعت سے وفاداری بڑے ایثار کا کام ہے۔ بلند درجہ پر پہنچ کر اور بلند ہونے کی آرزوئیں۔ دل میں چٹکیاں لینے لگتی ہیں اور کمتر درجہ کے لوگوں کی خدمت کا پاک جذبہ خود غرضیوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سیاسیات میں ہمیشہ یہ خیال رہے کہ بھان متی کا کنبہ مضبوط پارٹی کا کام نہیں دے سکتا۔ پارٹی کے ممبر پختہ خیال ہوں اور پارٹی کے پروگرام پر جان دینے والے ہوں۔ سیاسی پارٹی فوجی مشین سے زیادہ مضبوط ہو تو بات ہے۔ ورنہ ریت کی دیوار بھلی۔
فوجی حکومت کا قیام
سرسکندر بقول مسٹر جناح، مسٹر ایمرسن گورنر پنجاب کی پیداوار تھے۔ ہماری غلطی یہ تھی کہ ہمارے دیہاتی امیدوار پرانی جاگیرداری کے نمائندہ تھے۔ ہم نے ان کے وعدے پر اعتبار کر کے اپنی انقلابی مشین کے پرزے ثابت ہونے کی توقع کر لی۔ وہ جونہی اسمبلی میں آئے۔ فطرت کے قانون کا عام عمل ان کی طبیعتوں پر حاوی ہوگیا۔ ان کے رجحانات انقلابی ہونے کے بجائے سرمایہ دارانہ تھے۔ انقلابی جماعتیں ہمیشہ غریب ہوتی ہیں۔ سرمایہ داروں کو غرباء سے قلبی نفرت ہوتی ہے۔ البتہ غرباء سے غرض پوری کرنے اور ان پر حکومت جاری رکھنے کے خیال سے نفرت کو چھپانا ہوتا ہے۔ آبرو باختہ عورت چاہے کسی کو چاہے نہ چاہے۔ مگر وہ چہرے پر شیریں تبسم کا خوش نما