کے انداز سے معلوم ہوا کہ جہاں مرافعہ گزار مرزائیوں کے افعال شنیعہ کی دھجیاں بکھیرنا چاہتا تھا۔ وہاں وہ مسلمانوںکے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بھی پیدا کرنا چاہتا تھا۔ یہ امرکہ سامعین اس کی تقریر سے متاثر ہوکر امن شکنی پر نہ اتر آئے؟ اس کے جرم کو ہلکا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے۔
مجھے اس میں کلام نہیں کہ اپیلانٹ مرزائیوں پر تنقید کرنے میں حق بجانب تھا۔ لیکن وہ اس حق کو استعمال کرنے میں جائز حدود سے تجاوز کر گیا اور تقریر کے قانونی نتائج بھگتنے کا سزاوار بن گیا۔ مرافعہ گزار کے اس فعل کی مدح وثناء کرنا آسان ہے۔ لیکن ایسے حالات میں جہاں جذبات میں پہلے ہی سے ہیجان واشتعال ہو۔ اس قسم کی تقریر کرنا جلتی پر تیل ڈالنے کے مرادف ہے اور اگرچہ مرافعہ گزار نے صرف ایک اصطلاحی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن قانون کی ہمہ گیری کا احترام از قبیل لوازم ہے۔
فیصلہ (نومبر ۱۹۳۵ئ)
مقدمہ کے تمام پہلوؤں پر نظر غائر ڈالنے اور سامعین پر مرافعہ گزار کی تقریر کے اثرات کا اندازہ کرنے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مرافعہ گزار تعزیرات ہند دفعہ ۱۵۳ کے ماتحت جرم کامرتکب ہوا ہے اور اس کی سزا قائم رہنی چاہئے۔ مگر سزا کی سختی ونرمی کا اندازہ کرتے وقت ان واقعات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ جو قادیان میں رونما ہوئے۔ نیز یہ بات نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں کہ مرزاقادیانی نے خود مسلمانوں کو کافر، سؤر اور ان کی عورتوں کو کتیوں کا خطاب دے کر ان کے جذبات کو بھڑکایا۔ میرا خیال یہی ہے کہ اپیلانٹ کا جرم محض اصطلاحی تھا۔ چنانچہ میں اس کی سزا کو کم کر کے اسے تااختتام عدالت قید محض کی سزا دیتا ہوں۔
دستخط:
گورداسپور جی ڈی کھوسلہ
۶؍جون ۱۹۳۵ئ سیشن جج
یہ فیصلہ مسلمانوں کی دینی حس اور فطرتی صلاحیتیوں کو بیدار کرنے کا باعث ہوا۔ گویا ایسی بہار آئی کہ دلوں کے کنول کھل گئے۔ اہل حق نے اس فتنے کو اصلی رنگ میں دیکھ لیا اور دوسروں کو خبردار کرنے لگے۔ علامہ سر محمد اقبالؒ ذہنی طور سے احرار تھے۔ انہیں مرزائیوں کے عزائم میں اسلام کے لئے خطرہ نظر آتا تھا۔ وہ مرزائیوں کی اسلام دشمنی کے اوّل سے قائل تھے اور کبھی