(الحکم ج۹ مطبوعہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ئ) یکم؍اپریل کی رات کے وقت نزول وحی ہوا۔ ’’محونا نار جہنم‘‘ ہم نے جہنم کی آگ کو محو کیا۔ جس پر فرمایا۔ اجتہادی طور پر ایسا خیال ہے کہ شاید اﷲتعالیٰ اب قریباً دنیاسے طاعون کو اٹھانے والا ہے۔ واﷲ اعلم! یا کہ اس گاؤں سے اٹھانے والا ہے۔‘‘ (یعنی قادیان سے جہاں پر مرزاقادیانی مقیم تھے) صاف ظاہر ہے کہ قادیان مبتلا طاعون ہوا۔
(الحکم مورخہ ۳۰؍اپریل ۱۹۰۵ء ج۹ ص۲) پر ہے۔ ’’میں اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری اس جماعت کو ایک قسم کا دھوکہ لگا ہوا ہے۔ شاید اچھی طرح میری باتوں پر غور نہیں کی۔ وہ غلطی اور دھوکہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری جماعت میں سے طاعون سے فوت ہو جاتا ہے تو اس قدر بے رحمی اور سرد مہری سے پیش آتے ہیں کہ جنازہ اٹھانے والا بھی نہیں ملتا۔‘‘ کس قدر صاف ہے کہ قادیان میں کس زور سے طاعون نازل ہوئی۔ لہٰذا مرزاقادیانی بجائے رحمت کے زحمت ثابت ہوئے۔
(دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’قادیان میں ستر برس تک طاعون نہیں آئے گی۔ کیونکہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور تمام امتوں کا نشان ہے۔‘‘ حالانکہ مرزاقادیانی کے ہوتے ہوئے قادیان میں سخت طاعون پڑی۔ جیسا کہ اوپر گذرا۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ ایسے حالات میں نبوت، ولایت کا دعویٰ کرنا مناسب ہے؟
مرزاقادیانی اور آپ کی قرآن دانی
مرزاقادیانی کو اپنے علم پر وہ ناز تھا کہ جملہ عالم کو ہیچ تصور کرتے تھے اور کیوں نہ ہوتا۔ جب کہ وہ بزعم خود مامور من اﷲ اور ملہم تھے۔ لہٰذا ناظرین حضرات کو ہم دکھاتے ہیں کہ اس سلسلہ میں مرزاقادیانی کا پایۂ علم کیا تھا۔ بالخصوص آپ کی قرآن مجید میں کس قدر مہارت تھی۔
(براہین احمدیہ ص۴۲۹ حاشیہ) پر لکھتے ہیں۔ ’’لا تسجدوا للشمس ولا للقمر‘‘ حالانکہ قرآن مجید میں یوں ہے۔ ’’ولا تسجد واللشمس ولا للقمر‘‘ یہاں پر واؤ عاطفہ کو چھوڑ گئے۔