ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ بالفرض والتقدیر اگر حیات مسیح ثابت نہ ہو سکے تو بھی حضور پرنورﷺ سب سے آخری نبی ورسول ہیں۔ آپ کے زمانہ یا بعد میں کسی قسم کی نبوت کے جائز ہونے کا دعویٰ کرنا قرآن وحدیث اور مسلک جمہور اسلام کا صریح انکار ہے جو کہ کفر ہے۔
منشاء نزاع
اہل اسلام اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، خداتعالیٰ کے اولوالعزم نبی ورسول جو کہ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے وہ بوقت صعود الیٰ السماء بقید حیات تھے اور ان کو روح وجسم ہر دو کے ساتھ اﷲتعالیٰ نے آسمان پر اٹھالیا اور وہ آج تک آسمان پر زندہ ہیں اور قیام قیامت سے پہلے آسمان سے زمین پر اتریں گے۔
مسئلہ کی تنقیح کے لئے معیاری امور
ناظرین! پہلے اس کے کہ مسئلہ حیات مسیح پر شرعی دلیلوں سے روشنی ڈالی جائے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند ضروری امور جو کہ مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ایک معیاری حیثیت رکھتے ہیں۔ ذکر کرتے جائیں تاکہ ان کی روشنی میں مسئلہ کو سمجھنے میں سہولت ہو اور بغیر کسی دقت کے صحیح نظریہ پر پہنچا جاسکے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر شخص کا اپنے ہی خیال سے اس کا صحیح العقیدہ ہونا درست نہیں ہوسکتا۔ تاوقتیکہ وہ کسی معیار صداقت، عقلی اور نقلی کے ماتحت ہوکر اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے۔ آج گوروئے زمین پر متعدد گروہ اپنے اپنے لباس میں نمودار ہیں اور ہر ایک اپنی ہی حقانیت کا بآواز دہل چیلنج کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لیکن درحقیقت صحیح وہی ہوسکتا ہے جو کہ نقلی وعقلی اور قدرتی قانون اور ضابطہ کے موافق ہوگا اور جو اس کا مخالف ہو گا بالخصوص اپنے تسلیم کردہ اصول وضوابط کا ہی، وہ کاذب اور یقینی طور پر جھوٹا ہوگا۔قرآن مجید اور میعار صداقت
’’یایہا الذین امنوا اطیعوا اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شییٔ فردوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الاٰخر‘‘ {اے ایمان والو اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے صاحب امر لوگوں کی، پھر اگر کسی چیز میں تنازع پیدا ہو جائے تو اسے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف لے جاؤ۔ اگر تم اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہو۔}