شرعی دلیل ہو تو بیعت یا حلف وفاداری توڑ دے۔ کیونکہ ایسی صورت میں حکومت اسلامی نہیں۔ بلکہ کفر کی حکومت ہے۔ جس کے مٹانے کے لئے اسلام آیا ہے اور جس سے حسب طاقت جنگ کا حکم ہے۔
۴… نماز کا ترک کفر صریح ہے۔ جس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ دوسری حدیث میں کفر صریح کی جگہ ترک نماز کا ذکر ہے اور پہلی حدیث میں حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ بغیر کفر صریح کے حکومت سے نزاع کی اجازت نہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ترک نماز کفر صریح ہے۔
۵… حکومت پر چونکہ رعیت کی ذمہ داری بھی ہے۔ اس لئے حکومت کا صرف اپنا نماز پڑھنا کافی نہیں بلکہ اس کے ذمہ لوگوں میں نماز قائم کرنا بھی ہے۔ جیسے تیسری حدیث میں تصریح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر حکومت اس ذمہ داری کو چھوڑ دے اور تارکین نماز سے تعرض یا باز پرس نہ کرے تو یہ بھی اسلامی حکومت نہیں۔
حکومت پاکستان کے لئے یہ کتنی خطرناک چیز ہے۔ وہ تو تحفظ ختم نبوت میں پس وپیش کر رہی ہے۔ یہاں تحفظ نماز پر بھی وہی دفعہ لگ رہی ہے۔ خدا حکومت پاکستان کو سوچ وسمجھ دے اور اس کو اسلام کی محافظ بنائے۔ آمین!
یزید کی بیعت
یزید اگر نمازی تھا تو حسینؓ اور عبداﷲ بن زبیرؓ نے اس کی بیعت کیوں نہ کی اور اگر تارک نماز تھا تو عبداﷲ بن عمرؓ کیوں اس کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یزید کا تارک نماز ہونا ثابت نہیں۔ ہاں شراب خوری وغیرہ کا ذکر فتح الباری اور بعض دیگر کتب میں ہے اور ۶۰ھ میں جو اہل مدینہ کی طرف سے یزید کی بغاوت ہوئی اور یزید نے ان پر فوج کشی کی۔ اس کی وجہ بھی یہی شراب خوری وغیرہ لکھی ہے۔ اگر تارک نماز ہوتا تو بغاوت کی یہ وجہ (ترک نماز) چھوڑ کر صرف شراب خوری وغیرہ کے ذکر پر علماء اکتفا نہ کرتے اور یہی وجہ ہے کہ عبداﷲ بن عمرؓ نے اہل مدینہ پر اعتراض کیا کہ یہ بہت بڑا غدر ہے کہ ایک شخص سے بیعت کر کے پھر علم بغاوت بلند کیا جاتا ہے۔ چنانچہ بخاری ج۲ ص۱۰۵۳ میں ذکر ہے۔
رہا حسینؓ وغیرہ نے کیوں بیعت نہ کی؟ اس کی تین وجہیں ہیں۔
۱… احادیث مذکورہ میں صرف علم بغاوت بلند کرنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے سے روکا ہے۔ تاکہ انتشار اور بدامنی نہ پھیلے۔ بیعت کے لئے یا حلف وفاداری کے لئے مجبور نہیں کیا۔
۲… انتخاب کے بعد بیعت کرنے یا حلف وفاداری اٹھا کر نزاع پیدا کرنا یہ غدر