حاصل کلام یہ کہ نصوص قرآنیہ، احادیث متواترہ، صحابہ کرامؓ، تابعین، ائمہ، مجتہدین اور تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آخری زمانے میں زمین پر نازل ہوںگے۔
’’صحابہ کرام کا اجماع حجت ہے۔ جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۴۶۱، خزائن ج۱۵ ص۴۶۱)
نیز مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’من کفر بعقیدۃ اجماعیۃ فعلیہ لعنت اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین‘‘ جو اجماع کا منکر ہو وہ ملعون ہے۔
(انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص۱۴۴)
امید ہے کہ مدیر ’’پیغام صلح‘‘ مرزاقادیانی کے اس فیصلے کو بسروچشم قبول فرمائیں گے۔ ’’واﷲ الہادی‘‘
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتمچنانکہ حرف عصا گفت موسیٰ اندر طور
فیضان محمدﷺ کامل ہے
لاہوری مرزائی ہفت روزہ ’’پیغام صلح‘‘ اپنی ۱۶؍اپریل ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں تنظیم اہل حدیث کے جواب میں لکھتا ہے: ’’لیکن دین نصاریٰ کے ابطال کے لئے جناب مسیح علیہ السلام کو دوبارہ بھیجنے میں کیا مصلحت ہے؟ کیا محمد رسول اﷲﷺ کا فیضان معاذ اﷲ اتنا ہی ناقص ہے کہ آپؐ کے متبعین میں کوئی بھی کسر صلیب اور ابطال دین نصاریٰ کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ کے سامنے ایک متبع دین محمدیؐ نے اس کا بیڑا اٹھایا اور بہت حد تک اس کو پورا کر دکھایا۔ جس کی وجہ سے کوئی نصرانی اس کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہیں رکھتا۔ پھر بھی عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتارنا کس قدر مضحکہ خیز ہے اور امت محمدیہ کی کتنی بڑی ہتک اور ختم نبوت کے کس قدر منافی ہے۔‘‘
اﷲتعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور دوبارہ نازل فرمانے میں کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں؟ تاہم احادیث نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ:
٭…
وہ صلیب کو توڑ دیں گے۔
٭…
دین نصاریٰ کو ایسا باطل کریں گے کہ اس کا نام ونشان ہی مٹ جائے گا۔