اخبار مباہلہ بند کرنا پڑا، جیل بھگتی۔ مگر مرزائیوں کا ناطقہ بند کر کے چھوڑا۔ شاید ہی کسی نے کسی سے ایسا کامیاب انتقام لیا ہو۔ جیسا کہ مباہلہ والوں نے لیا۔ آج ان کی آنکھوں کے سامنے مرزائیت بے توقیر ہے۔ آج مرزائیوں پر بے بھاؤ کی پڑ رہی ہیں۔ علماء ہی نہیں بلکہ مسلمان عوام بھی مرزائیوں کے نام سے بیزار ہیں۔
شہید گنج کی گونج
ہاں یہ سچ ہے کہ مرزائیوں کی نامقبولیت کا ذمہ دار انگریزی سرکار نے احرار کو ٹھہرایا اور بقول مرزاغلام احمد احمدیت برٹش حکومت کا خود کاشتہ پودا تھی۔ اس کو خشک ہوتے دیکھ کر حکومت کا خون خشک ہوتا تھا۔ چنانچہ سوچ بچار کے بعد یہ اعلان کیا کہ قادیان میں نماز جمعہ پڑھانے باہر سے کوئی عالم نہ آئے۔ خیال یہ تھا کہ کہیں علاقے سے قادیانی اثرورسوخ کم نہ ہو جائے۔ ایک ہی فریق کی تبلیغ کے دروازے کھولنا اور دوسروں پر یہ دروازہ بند رکھنا انصاف نہ تھا۔ مگر محبت میں انصاف کے تقاضوں کو کون پورا کرتا ہے۔ لیکن ایسے احکام کھلے طور پر احرار کے بڑھے ہوئے اثرورسوخ کی دلیل تھی۔ درمیان میں ایک واقعہ ایسا بھی رونما ہوا۔ جس سے حکومت کے حواس اور پراگندہ سے ہوگئے۔ مجلس احرار نے ایک نومسلم بیرسٹر خالد لطیف گابا کو جو سابق وزیر لالہ ہرکشن لعل کا فرزند تھا۔ اپنی طرف سے امیدوار کھڑا کیا۔ مسلمانوں کے سرکار پسند اعلیٰ طبقے نے خان بہادر حاجی رحیم بخش صاحب سابق سیشن جج کو مقابلے کے لئے کھڑا کیا۔ مگر انہیں ناکامی ہوئی۔ اس انتخابی شکست سے حکومت کو احرار کی طاقت سے بجا طور پر خوف معلوم ہوا۔ پنجاب کو ہندوستان کی سیاسیات میں خاص درجہ حاصل ہے۔ حکومت کے اپنے عزائم اور منصوبے اسی ایک خطے سے وابستہ تھے۔ حکومت نہ چاہتی تھی کہ احرار برسر اقتدار آجائیں اور انگریزی سرکار کو بیچ بازار للکاریں اور آڑے وقت میں اڑیل ٹٹو بن جائیں۔ ان بے جا احتمالات کے پیش نظر حکومت کا احرار کے مٹانے پر کمر بستہ ہو جانا دلیل دانائی تھی۔
اسی زمانے میں احرار نے میاں سر فضل حسین کو جو بساط سیاست کے کامیاب کھلاڑی تھے۔ جن کی چالیں بے حد گہری اور جن کی تدبیریں بہت مؤثر ہوتی تھیں۔ ناراض کر لیا۔ بلکہ اس کے خلاف ایک محاذ قائم کیا۔ سرظفر اﷲ کو میاں سر فضل حسین نے یہاں تک نوازا کہ اس کی سفارش حکومت ہند تک کی۔ حکومت ہند گویا اس سفارش کی منتظر ہی تھی۔ مرزائیت کا حکومت انگریزی سے جو تعلق ہے۔ اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ حکومت ہند کے ایگزیکٹو کونسلر کے عہدہ پر ایک