دنوں مولوی (حکیم) نور الدین صاحب گھوڑی سے گر کر صاحب فراش تھے۔ ان کو چوٹوں کی وجہ سے بہت تکلیف تھی۔ ڈاکٹر محمد حسین، ڈاکٹر یعقوب بیگ اور مرزا کمال الدین وغیرہ ان کی تیمار داری کرتے تھے۔ ایک روز میں بھی فرصت نکال کر بیمار پرسی کے لئے گیا۔ مگر ڈاکٹر صاحبان نے مولوی صاحب کو اطلاع کرنے کی معذوری کا اظہار کیا۔ چنانچہ میں واپس لوٹ آیا۔
(حکیم) مولوی نورالدین صاحب قادیانی سے پہلی ملاقات
جناب مولوی صاحب کی حالت روزبروز بہتر ہونے لگی۔ چنانچہ ایک روز انہوں نے اپنے مریدین سے دریافت کیا کہ ہم نے عرصہ سے سب پوسٹ ماسٹر کو نہیں دیکھا کیا بات ہے۔ چونکہ سید عبدالغنی شاہ سب پوسٹ ماسٹر ہر روز بلاناغہ مولوی صاحب کی خدمت میں جایا کرتے تھے اور چونکہ ان کے بال بچے وہاں نہ تھے۔ اس لئے روٹی بھی انہیں لنگر سے جایا کرتی تھی۔ مریدین نے عرض کیا کہ پہلا سب پوسٹ ماسٹر یہاں سے تبدیل ہوگیا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا شخص آیا ہوا ہے۔ چنانچہ مولوی صاحب نے ایک خاص آدمی میری طرف بھیجا کہ حضرت صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں۔ مجھے چونکہ سرکاری کام کی زیادتی تھی۔ میں نے کہلا بھیجا کہ اس وقت تو معذور ہوں۔ کل شام چھ بجے حاضر ہونے کی کوشش کروں گا۔ دوسرے روز جب وعدہ مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچا۔ اس وقت مولوی صاحب صحن میں چارپائی پر بیٹھے تھے۔ مرزامحمود صاحب قادیانی ان کے پاس تشریف فرماتھے۔ علیک سلیک کے بعد مولوی صاحب کمال مہربانی سے کھڑے ہوگئے۔ مصافحہ کیا۔ مرزامحمود قادیانی چارپائی کی پائیتی کی طرف ہوگئے اور مولوی صاحب نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ باقی اکابرین وحاضرین نیچے فرش پر بیٹھے تھے۔ مزاج پرسی کے بعد مولوی صاحب نے فرمایا۔ آپ کو قادیان میں آئے کتنا عرصہ ہوا ہے اور یہاں کسی قسم کی کوئی تکلیف تو نہیں۔ اگر کوئی تکلیف ہوتو بلاتأمل بتادو کہ اسے رفع کیا جاسکے۔
میں نے بعد از شکریہ عرض کی کہ میرے دو عزیز یہاں ہی رہتے ہیں۔ ایک تو برادرم محترم سید شاہ چراغ صاحب دوسرے میرے بزرگ محمد علی شاہ صاحب چونکہ یہ دوگھر میرے اپنے ہی ہیں۔ اس لئے میں اپنے آپ کو اپنے گھر میں ہی سمجھتا ہوں۔ مولوی صاحب کو محمد علی شاہ صاحب کا سن کر مسرت ہوئی۔ کیونکہ وہ ان کے خاص مریدین سے تھے۔
مولوی نورالدین صاحب کا درس
مکمل صحت ہونے پر مولوی صاحب نے حسب دستور درس قرآن حکیم شروع کیا۔ میرے مہربان دوست مجھے ہر روز مجبور کرتے کہ کسی روز مولوی صاحب کا درس سنوں۔ میں نے