پراسرار موٹر کا معاملہ
دوسرا مسئلہ جس پر عدالت نے کوئی واضح فیصلہ نہیں دیا ہے۔ یہ ہے کہ ۴؍مارچ کو جو پراسرار موٹر گاڑی مسلمانوں پر گولیاں چلاتی پھر رہی تھی۔ اس پر کون لوگ سوار تھے؟ یہ سوال اس لئے تصفیہ طلب تھا اور اس کی بڑی اہمیت تھی کہ اس گاڑی کے متعلق مسلمانوں کا عام خیال یہ تھا کہ اس پر قادیانی سوار ہیں اور وہی مسلمانوں کو بے تحاشا گولیوں سے ہلاک اور زخمی کرتے پھر رہے ہیں۔ اس چیز نے اشتعال کا رخ قادیانیوں کی طرف پھیر دیا اور قادیانیوں کا جتنا نقصان بھی ۴اور۶؍مارچ کے درمیان ہوا۔ اس واقعہ کے بعد ہوا۔ اس سے پہلے کے کسی حادثے کی اطلاع ہمیں اس رپورٹ میں نہیں ملتی۔ عدالت اس کے متعلق یہ لکھتی ہے: ’’یہ الزام کہ چند احمدی ایک جیپ میں فوجی وردی پہنے ہوئے لوگوں کو اندھا دھند گولیوں کا شکار بناتے پھر رہے تھے۔ ہمارے سامنے ثبوت طلب معاملے کی حیثیت سے پیش ہوا اور اس کی تائید میں چند گواہ لائے گئے۔ لیکن اگرچہ یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روز کوئی پراسرار گاڑی چند غیرمعروف آدمیوں کو لئے پھر رہی تھی۔ مگر ہمارے سامنے اس امر کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ وہ لوگ جو اس پر سوار تھے۔ احمدی تھے یا وہ گاڑی بجائے خود ایک احمدی کی ملکیت تھی۔‘‘
رپورٹ کے انداز بیان کا تقاضا یہ ہے کہ اس الزام کا شماران چالوں (Tactics) میں کیا جانا چاہئے جو ایجی ٹیٹروں نے نفرت پھیلانے کے لئے اختیار کی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں اس عبارت کا ظاہر مطلب یہ نکلا کہ ۴؍مارچ کو ایسی گاڑی پھر تو ضرور رہی تھی۔ مگر یہ بات کہ اس پر احمدی سوار تھے۔ ایجی ٹیٹروں کی پھیلائی ہوئی تھی۔کیونکہ ان لوگوں کے احمدی ہونے کا کوئی ثبوت شہادتوں سے نہیں ملا۔ مگر قرائن کیا کہتے ہیں؟ اگر وہ جیپ پولیس یا فوج کی ہوتی تو لامحالہ عدالت کو سرکاری ریکارڈ سے اس کا پتہ چل جاتا۔ ظاہر ہے وہ سرکاری جیپ نہ تھی۔ جس پر پولیس یا فوج کے آدمی یہ حرکت کرتے پھر رہے ہوں۔ یہ بھی توقع نہیں کی جاسکتی کہ سرحد پار سے ہندو اور سکھ مسلمانوں پر گولیاں چلانے آگئے تھے۔ ایک آخری صورت یہ باقی رہ جاتی ہے کہ خود مسلمان اس ہنگامے کے موقع پر اپنے بھائیوں کو بلا امتیاز نشانہ بناتے پھر رہے تھے اور اگر یہ تینوں قرائن کے فریم میں درست نہ بیٹھیں تو الزام پھر قابل غور ہو جاتا ہے۔ لیکن رپورٹ اس بارے میں پوزیشن کو صاف کئے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔