لیگ کا سرمایہ دارانہ نظام
اگرچہ عقل کا تقاضا یہ تھا مگر تجربے کی تلخی نے عمل میں اور رنگ پیدا کر دیا۔ جوں ہی ہم نے لیگ میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ امراء کے ایوان میں زلزلہ آیا۔ امراء نے سوچا کہ مفلسی ہمارے گھر میں کیسے گھس آئی؟ کوئی تدبیر لڑاؤ کہ احرار مکھن سے بال کی طرح نکال دئیے جائیں۔ سرمایہ دار بے حد ہوشیار تھا۔ احرار کا اخلاص تدبیر سے لاپروا رہا۔ مگر تدبیر کیا کرتے جہاں سرمایہ کا سوال ہو وہاں اخلاص کو ہتھیار ڈال دینے ہوتے ہیں۔ پہلے لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے ۵۰روپے کی رقم مقرر تھی۔ اب احرار کو لیگ کے ٹکٹ کا خریدار دیکھ کر ارباب لیگ نے بھاؤ بڑھا کر ۷۵۰روپے کر دیا۔ تاکہ غریب احرار کا کوئی امیداوار اتنی رقم دے کر ٹکٹ نہ حاصل کر سکے۔ ہم نے ہزار چاہا کہ یہ رقم ۲۵۰ہی ہو جائے۔ تو مشکل آسان ہو۔ مگر اس میں کامیابی بہت دور دکھائی دی۔ ناچار احرار نے اپنی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب امرائے لیگ نے سمجھا کہ اب خطرہ ٹل گیا۔ کھل کھیلے اب پھر وہی ۵۰روپے شرح ٹکٹ ٹھہری۔ غریبوں کا امیروں کے نظام میں گھس آنا آسان نہیں جو اسے کھیل سمجھے ہیں۔ تجربے کی تلخی سے بالآخر منہ بسورتے ہیں۔ جمہوری ادارے جن پر سرمایہ دار قابض ہوں۔ ان میں داخل ہونا بڑا کٹھن کام ہے۔ پھر اس پر قابض ہوکر عوام کے مفید مطلب کام چلانا کھیل نہیں جو بچے کھیلیں۔ بابو سبھاش چندر بوس کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا۔ کانگریس کے سرمایہ دارانہ نظام پر قابض ہونے چلا تھا۔ آخر روپوش ہونا پڑا۔ سوشلسٹ بھی نیشنل فرنٹ بنا کر کانگریس میں اقتدار پیدا کرنے گئے۔ اپنی جماعتی افادیت بھی کھو بیٹھے اور کان نمک میں نمک ہوکر رہ گئے۔
جب بھی احرار کو ایسا مرحلہ درپیش ہو۔ انہیں اپنے موجودہ تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ خوب سوچ بچار کر اور پوری تیاری سے کسی سرمایہ دارانہ نظام میں داخل ہونا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ منہ کی کھا کر واپس لوٹنا پڑے۔
سرسکندر حیات اور احرار
سرسکندر حیات خاں کی سیاسیات نے اگرچہ میاں سرفضل حسین کے زیرسایہ پرورش پائی۔ مگر انہوں نے میاں صاحب کی امیدوں کو مایوسیوں میں بدل دیا۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ میاں صاحب سرفضل حسین ہندوؤں کی نظر میں اورنگزیب کا بروز تھے۔ سرسکندر نے بڑھ کر امید دلائی کہ ہندوؤں کے لئے وہ اکبر ثابت ہوںگے۔ اس طرح وہ ہندوؤں کا سہارا پاکر