مرزائی گروہ ہے کہ انگریز نے جھوٹی نبوت کی تخلیق وایجاد کر کے اور اس کی بڑے اہتمام سے اپنے زیرسایہ پرورش کر کے اسلام پر جو گہری ضرب لگائی ہے وہ ملت اسلامیہ کے لئے خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بن رہی ہے۔ مولیٰ تعالیٰ اس کے مفاسد سے اہل اسلام کو محفوظ رکھے۔
مرزائیت انگریز کا خودکاشتہ پودا
مختصر یہ کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی مسلمان اور انگریز کے مابین اسلام اور کفر کی آخری جنگ تھی جو لڑی گئی۔ جس میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور مسلمانوں کے دل جس کی وجہ سے دو نیم ہوگئے۔ مگر زخم خوردہ شیر غراں کی طرح موقع کی تلاش میں رہے کہ موقع پاکر شکست کا بدلہ لیں۔ مگر انگریز کی شاطرانہ پالیسی نے دوبارہ موقعہ نہ دیا۔ بلکہ اس نے اپنے قدم مضبوط کرنے کے لئے سازشی تحریکوں کا آغاز کیا۔ منجملہ ان دیگر قسم کی تحریکوں کے خلاف دینی اور مذہبی محاذ پر قادیانی سازش کی بنیاد ڈال کر اسے اپنے زیرسایہ کماحقہ، پروان چڑھایا۔ نیز ایک کمیشن لندن سے ہندوستان بھیجا۔ تاکہ وہ انگریزوں کے متعلق مسلمانوں کا مزاج معلوم کرے اور آئندہ مسلم قوم کو دائمی طور پر مطیع کرنے کی تجاویز مرتب کرے۔ اس کمیشن نے سال کے بعد ہندوستان رہ کر جو حالات معلوم کئے ان کی رپورٹ پیش کی۔ ۱۸۷۰ء میں وائٹ ہاؤس لندن میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں کمیشن مذکور کے نمائندگان کے علاوہ ہندوستان میں متعین مشنری کے پادری بھی دعوت خاص میں شریک ہوئے۔ جس میں دونوں نے علیحدہ علیحدہ رپورٹ پیش کی جو کہ ’’دی آرائیول آف برٹش ایمپائران انڈیا‘‘ کے نام سے شائع کی گئیں۔
رپورٹ سربراہ کمیشن سرولیم ہنٹر
مسلمانوں کا مذہباً عقیدہ یہ ہے کہ وہ کسی غیرملکی حکومت کے زیرسایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیرملکی حکومت کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے۔ جہاد کے اس تصور میں مسلمانوں کے لئے ایک جوش اور ولولہ ہے اور وہ جہاد کے لئے ہر وقت ہر لمحہ تیار ہیں۔ ان کی یہ کیفیت کسی وقت بھی انہیں حکومت کے خلاف ابھار سکتی ہے۔
ناظرین! ان الفاظ کو باربار پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ مسلمانوں کے لئے جہاد کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ گویا مسلمان اور جہاد لازمی اور دائمی طور پر لازم ملزوم ہیں کہ دونوں میں افتراق ناممکن ہے۔