اس کے ساتھ ہی بخاری ومسلم کی حدیث: ’’واﷲ لینزلن فیکم ابن مریم‘‘ آپ نے فرمایا۔ مجھے اس ذات واحد کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق اتریں گے تم میں ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) حاکم عادل ہوکر ملالیں۔
اس حدیث میں آنحضرتﷺ قسم کھا کر نزول عیسیٰ علیہ السلام بیان فرمارہے ہیں۔ جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں۔
مرزاقادیانی کی شہادت
مرزاقادیانی رقم طراز ہیں کہ: ’’نبی کا کسی بات کو قسم کھا کر بیان کرنا اس بات پر گواہ ہے کہ اس میں کوئی تاویل نہ کی جائے۔ نہ استثناء بلکہ اس کو ظاہر پر محمول کیا جائے۔ ورنہ قسم سے فائدہ ہی کیا۔‘‘ (حمامتہ البشریٰ حاشیہ ص۱۴، خزائن ج۷ ص۱۹۲)
حیات اور نزول عیسیٰ علیہ السلام کی حکمت
حکمت الٰہیہ حضرت عیسیٰ روح اﷲ کے زندہ رکھنے اور پھر دنیا میں نازل کرنے میں یہ ہے کہ نظر برکمالات انبیاء علیہم السلام چار وصف ایسے معلوم ہوتے ہیں۔ جن کا حصول بہ نسبت انبیاء اولوالعزم علیہم السلام کے ضروری ہے۔ گو ان میں سے کسی کی نسبت کوئی وصف بہ باعث عدم ضرورت قرآن شریف میں مذکور نہ ہو یا بسبب موانع وعوائق خارجیہ مثل عدم ضرورت ظہور بالفعل ظاہر نہ ہوا ہو۔ مگر بالقوہ وہ سب ان اوصاف اربعہ سے متصف ہیں۔
۱… مبشر بہ (بصیغہ اسم مفعول) اس اعتبار کے کہ اس پیغمبر کے ہونے کی شہادت پہلے دی جاتی ہے۔ جیسے حضرت روح اﷲ کی نسبت علی لسان الملائکہ حضرت مریم علیہا السلام کو بشارت دی گئی۔ ’’یا مریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم (آل عمران: ۴۵)‘‘ {مریم! خدا تم کو اپنے کلمہ کی جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ بشارت دیتا ہے۔}
اور نیز: ’’رسولاً الیٰ بنی اسرائیل (آل عمران:۴۹)‘‘ {اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف۔}
پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبشربہ ہوئے۔
۲… مصدق۔
۳… مبشر (ہر دو بصیغہ اسم فاعل) مصدق اس نظر سے کہ وہ رسول اپنے سے پہلے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے اور مبشر اس لحاظ سے کہ وہ رسول کسی دوسرے رسول کے آنے کی