الوجود اور نادر الوقوع ہو۔ کسی طرح سے اس بات کی تصریح ضروری خیال نہیں کی جا سکتی کہ اگر آپ آسمان پر اٹھائے جائیں تو… الخ!
ناظرین! باتمکین آپ کو اس بیان کے سن لینے کے بعد یہ امر واضح ہوگیا ہوگا کہ مرزائی صاحبان کا یہ کہنا کہ گذر جانے کے صرف دو طریقے قرار دئیے ہیں۔ اگر کوئی تیسری صورت گذرنے کی ہوئی تو اس کا بھی آیت میں ذکر ہوتا اور معنی یہ کرنا کہ سب رسول گذر چکے ہیں۔ یعنی فوت ہوچکے ہیں۔ بالکل بے انصافی ہے اور قرآن مجید میں ناجائز تصرف کا ارتکاب ہے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ اگرکوئی کہے کہ چونکہ آنحضرتﷺ نے آسمان پر نہ جانا تھا تو میں کہتا ہوں کہ آنحضرتﷺ نے قتل بھی نہ ہونا تھا۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ وعدہ فرماچکا ہے۔ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ پھر اس کا ذکر کیوں کیا۔ (پاکٹ بک احمدیہ ص۳۵۵) بھی نادرست ہے۔ ہمارے بیان میں ادنیٰ تامل کرنے سے اس کا ظاہر البطلان ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ بلکہ وجہ وہ ہے جو کہ اوپر بیان ہوچکی۔
مفسرین کرام اور حیات مسیح علیہ السلام
امام جلال الدین سیوطی، شیخ جلال الدین محلی، تفسیر اتقان وتفسیر جلالین ’’ومکروا ومکراﷲ خیر الماکرین بان اﷲ تشبہ عیسیٰ علی من قصد قتل ورفع عیسیٰ الیٰ السمائ‘‘ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشبیہ اس شخص پر ڈالی گئی۔ جس نے آپ کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور آپ کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ محمد طاہر گجراتی (مجمع البحار ص۱۰۲) ’’فیبعث اﷲ عیسیٰ ای ینزل من السمائ‘‘ یعنی عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے۔ حافظ ابو محمد حسین البغوی تفسیر (معالم التنزیل ج۱ ص۲۶۳) ’’بل رفع اﷲ عیسیٰ الیٰ السمائ‘‘ یعنی بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا۔ قاضی نصیرالدین بیضاوی (تفسیر بیضاوی ج۲ ص۸۲) ’’روی ان عیسیٰ ینزل من السماء حین یخرج الدجال فیقتلہ‘‘ یعنی جب دجال نکلے گا اتریں گے اور اس کو قتل کریں گے۔ سید معین الدین محمد، (تفسیر جامع البیان ص۱۰۱) ’’فلما توفیتنی الیٰ السمائ‘‘ یعنی اٹھایا مجھے آسمان پر۔ علاؤالدین خازن (تفسیر خازن ج۱ ص۵۳۱) ’’فلما توفیتنی فلمّا رفعتنی الیٰ السمائ‘‘ یعنی جب کہ تو نے مجھے آسمان پر اٹھا لیا۔ ابو البرکات عبداﷲ بن احمد حنفی (تفسیر مدارک، التنزیل ج۱ ص۲۰۶) ’’روی ان عیسیٰ ینزل من السماء فی اٰخر