ہو گئے تھے۔ صبرو سکون کی ہدایت کی جاتی تھی۔ تاآنکہ پانی سر سے گذرنے لگا۔ ہمارے مخالفوں نے شرافت کے سارے آئین کو بالائے طاق رکھ دیا۔ آخر ہمیں معلوم ہوا کہ جبر، جبر کی حد سے بڑھ گیا ہے۔ اب ترکی بہ ترکی جواب دینے کے سوا چارہ نہیں۔ ہم مدافعانہ جنگ میں پسپا ہوتے ہوتے اس مدافعتی خط پر پہنچ گئے۔ جہاں مزید پسپائی کی گنجائش نہ تھی۔ ہمارے خلاف ہر روز نیا جھوٹ تراشا جاتا تھا۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ دہلی دروازے کے شہداء کو کتے کی موت مرنے والا کہاگیا۔ ہمارے مخالف جانتے تھے کہ شہداء کے متعلق یہ ناقابل برداشت فقرہ ہے۔ جب ہم تردید کرنا چاہتے تھے تو اخباروں میں ہماری تردید کوئی شائع نہ کرتا تھا۔
ایک تائیدی آواز پھر بزن
مخالفت کے نقار خانے میں جہاں دشمنوں کے شور میں ہماری آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ پنجاب کے سوشلسٹوں کی آواز تھی جو گاہے ماہے قوم کو خانہ جنگی سے متنبہ کرتی تھی اور عملاً احرار کے ساتھ ہم آہنگ تھی اور جو واضح طور پر اس رائے کی تھی کہ مسجد شہید گنج کی شہادت خوفناک سازش ہے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ آواز کسی حد تک بعض لوگوں کی توجہ کا مستحق بنی۔ لیکن سوشلسٹوں کے لیڈر جلد ہی دھر لئے گئے اور انہیں سخت سزائیں دی گئیں۔ پھر حق وصداقت کے لئے کوئی آواز بلند نہ ہوئی۔ ہماری حالت یہ تھی کہ ہم مسلمانوں میں خوں ریزی اور سرپھٹول کے خوف سے جلسہ نہ کرتے تھے۔ مخالفوں نے غلط اندازہ لگایا کہ ہم مخالفت کے خوف سے معتکف ہیں۔ آخر میں ہمیں اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا کہ ہم شیر کی طرح مخالفت کے بہاؤ میں سیدھے تیریں اور خم ٹھونک کر میدان میں نکلیں۔ چنانچہ بعض احتمالات کے پیش نظر لاہور میں یک روزہ کانفرنس کی گئی۔ تاکہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ مولانا ظفر علی اور ان کے ساتھیوں نے خود پس پردہ بیٹھ کر اپنے ہم خیال نوجوانوں کے مضبوط جتھے کو دہلی دروازے کے باہر بھیجا کہ احرار کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ ہم نے ہر چند چاہا کہ ہم پرامن جلسہ کریں۔ ان نوجوانوں کو یقین دلایا کہ ہم آپ کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکتے ہیں۔ مگر انہوں نے کوئی دلیل اپیل نہ سنی۔ اپنی سی کہتے رہے کہ احرار کو ہرگز جلسہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے سٹیج پر قبضہ کر لیا اور غنڈہ گردی شروع کر دی۔ جب ہمارے لئے باعزت بھاگنے کی بھی راہ نہ رہی تو احرار والنٹیروں کے سالار نے بھی بزن کا حکم دے دیا۔ احرار کے والنٹیر دست بدست لڑائیوں میں زیادہ سلجھے ہوئے تھے۔ ان کا ہاتھ دوسروں کی نسبت زیادہ رواں تھا۔ آدھ گھنٹہ کی دھینگا مشتی اور