اس قسم کی اور بھی بہت وجوہات ہیں۔ بلکہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اربعین میں خود صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیاہے اور یہ لاہوری مرزائیوں کو بھی مسلم ہے کہ صاحب شریعت کی نبوت کا انکار کفر ہے۔ (ملاحظہ ہو نبوۃ فی الاسلام ص۷۵،۷۶)
خلاصہ یہ کہ مرزائی لاہوری ہوں یا قادیانی۔ دونوں کافر ہیں۔
حکومت پاکستان کا نظریہ
اب حکومت پاکستان کے نظریوں پر غور فرمائیے۔
پہلا نظریہ
موجودہ تحریک کو مسئلہ ختم نبوت سے کوئی تعلق نہیں۔
اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اسلامی حکومت ہے یا غیر اسلامی۔ اگر غیراسلامی ہے تو پھر بھارت اور پاکستان ایک ہی شے ہے۔ تقسیم ملک بیکار گئی اور لاکھوں قربانیاں برباد ہوگئیں۔ ایسا کہنے کی جرأت تو کون کرے گا۔
اور اگر اسلامی حکومت ہے۔ جیسا کہ پاکستان کو اسلامی حکومتوں میں سب سے بڑی حکومت کہا جاتا ہے تو پھر اسلامی حکومت کی تعریف اس پر صادق آنی چاہئے۔ چونکہ آپ اس کو جمہوری حکومت کہتے ہیں۔ یعنی اکثر افراد کی حکومت جو رائے عامہ کے تحت ہو اس لئے کم از کم کلیدی آسامیاں (جن میں مسلم غیر مسلم دونوں کی نمائندگی کے اختیارات ہوں) مسلمان ہونی چاہئیں۔ ورنہ حکومت اسلامی محض ایک فریب ہوگا۔ جس کو مذہبی رنگ دیا گیا ہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جب تک پاکستان میں اسلامی قانون رائج نہ ہو، اس کو اسلامی حکومت کہنا صرف ایک خوش فہمی ہے۔
یہ تو بالکل سطحی نظر ہے کہ کلیدی آسامیاں کافر ہوں اور حکومت اسلامی کہلائے۔ علم منطق کا مشہور مسئلہ ہے کہ نتیجہ ’’اخس ارذل‘‘ کے تابع ہوتا ہے۔ یعنی مرکب شے میں ایک چیز ناقص ہو تو ساری ناقص کہلاتی ہے۔ مثلاً پورے قرآن مجید پر ایمان لا کر صرف ایک آیت کے ساتھ کفر ہو تو وہ کافر ہی کہلائے گا۔ اسی طرح تمام انبیاء علیہ السلام کو مان کر ایک کا انکار کرے تو وہ کافر ہے۔ یہودی، عیسائی اسی لئے کافر ہیں۔
پس حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اپنے نام اور مقام کا لحاظ کرتے ہوئے ظفر اﷲ کو وزارت خارجہ کے عہدے سے سبکدوش کر دے۔