جناب! یہ کہہ دینا آسان ہے کہ اس حدیث کو ہم نہیں مانتے۔ یہ قران کے خلاف ہے۔ مگر یہ ثابت کرنا کہ اس دلیل سے قرآن کے خلاف ہے مشکل ہے۔ کیا ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہہ دے کہ یہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ یا اس کے لئے علم وعقل کی ضرورت ہے؟
کیا حدیث صحیح قرآن کے خلاف ہوسکتی ہے؟ یہ حدیث حضرت جابرؓ سے مشکوٰۃ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں بحوالہ احمد، بیہقی میں موجود ہے۔
کیا مدیر ’’پیغام صلح‘‘ بتائیں گے کہ کس نے اس کو قرآن کے خلاف کہا ہے؟ کسی امام، محدث یا فقیہہ نے کسی ایک کا نام تو لیجئے۔ کیا مرزاقادیانی نے کہیں لکھا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ اگر نہیں تو آپ کا قول بے دلیل ہے۔ جسے کوئی عقل مند تسلیم نہیں کر سکتا۔
کیا یہ حدیث نبویﷺ کا انکار نہیں؟
کیا حدیث رسولﷺ کا انکار کفر نہیں؟
کیا حدیث رسولﷺ کو چھوڑنے والا بقول مرزاقادیانی خبیث نہیں؟
اثبات حیات مسیح علیہ السلام
اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ویکلم الناس فی المہد وکھلاً ومن الصالحین (آل عمران:۴۶)‘‘ {کلام کرے گا لوگوں سے گہوارے میں اور کہولت کی عمر میں اور صالحین سے ہوگا۔}
’’تکلم فی المہد اور تکلم فی الکہولت‘‘ {کسی اور نبی کی شان میں سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وارد نہیں ہوا۔ اﷲ انعام جتائے گا۔}
’’اذا یدتک بروح القدس تکلم الناس فی المہد وکھلاً (مائدہ:۱۱۰)‘‘ {جب کہ تائید کی میں نے تیری، روح القدس سے کہ تونے لوگوں سے گہوارے میں اور کہولت کی عمر میں کلام کیا۔}
جس طرح تکلم فی المہد امر خارق عادت ہے۔ اسی طرح تکلم فی الکہولۃ بھی امر خارق عادت ہے۔ کلام فی الکہولۃ بظاہر امر عجیب نہیں۔ کیونکہ یہ زمانہ کہولت میں سب بولنے والے کلام کیا کرتے ہیں۔اس لئے اس معجزہ عیسویہ کی صورت یہ ہوگی کہ اتنے زمانہ دراز تک جسم کا بغیر طعام وشراب زندہ رہنا اور اس میں کسی قسم کا تغیر نہ ہوا۔ امر خارق عادت ہے۔ ورنہ تخصیص مسیح کی کوئی وجہ نہیں۔ تکلم فی المہد کا ذکر سورۂ مریم میں ہے۔