۳… ۱۹۱۹ء میں تحقیقات کے لئے جو کمیٹی مقرر کی گئی تھی۔ وہ صرف ملازمین ریاست ہی پر مشتمل نہ تھی۔ بلکہ اس میں تین غیرسرکاری ہندوستانی ممبر (سرچمن لال سیتلواد، مسٹر جگت نرائن لال اور سرسلطان احمد) بھی شامل تھے۔ ملازمین ریاست کے ساتھ ان غیرسرکاری ممبروں کی شمولیت کا فائدہ یہ ہوا کہ واقعات کے تمام پہلو سامنے آگئے اور ایک ایسی رپورٹ شائع ہوئی جو صرف ایک ہی نقطۂ نظر کی حامل نہ تھی۔ اس کے برعکس ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں کی تحقیقات میں کوئی ایک بھی غیرسرکاری، عوامی آدمی (Public Man) شامل نہ کیاگیا۔ کوئی شخص جو ہنٹر کمیٹی رپورٹ اور اس تازہ تحقیقات کی رپورٹ کا مقابلہ کر کے دیکھے گا۔ یہ محسوس کئے بغیر نہ رہے گا کہ ایک جگہ غیرسرکاری ممبروں کے موجود ہونے اور دوسری جگہ ان کے موجود نہ ہونے سے کتنا بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔
پھر ۱۹۱۹ء میں تحقیقات کے لئے عدالتی ساخت کا کمیشن نہیں۔ بلکہ کمیٹی مقرر کی گئی تھی۔ جس کو قانون توہین عدالت کا تحفظ حاصل نہ تھا اور جس کی کارروائیوں کو آزادی سے شائع کیاجاسکتا تھا اور ان پر پبلک میں نہایت ہی آزادانہ بحث وتنقید ہوتی رہی تھی۔ اس لئے مختلف نقاط نظر کی حامل ہونے کے باوجود رپورٹ میںجو خامیاں باقی رہ گئی تھیں ان کی تلافی پریس کی تنقید سے اچھی طرح کی جاسکتی تھی اور عملاً کی گئی۔ بخلاف اس کے ۱۹۵۳ء میں تحقیقات کے لئے کمیٹی کے بجائے عدالتی ساخت کا کمیشن مقرر کیاگیا۔ جسے دوران کارروائی میں پورے پورے عدالتی حقوق واختیار بھی دئیے گئے۔ پھر اسے عام قانون شہادت کے تقاضوں سے بالاتر بھی رکھاگیا اور مزید یہ کہ توہین عدالت کے قانون کا تحفظ بھی اسے حاصل تھا۔
ان وجوہ سے ہم اس قانون کو سراسر غلط اور ناروا سمجھتے ہیں۔ جس کے تحت یہ تحقیقات کرائی گئی ہے۔ ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت ان حقوق اور اختیارات کا تو بڑی شدت کے ساتھ مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ جو فطری طور پر ایک قومی حکومت کو حاصل ہونے چاہئیں۔ لیکن اپنے فرائض وواجبات کے معاملہ میں وہ پچھلے دور کی بیرونی حکومت سے بھی چند قدم پیچھے ہی رہتی ہے۔
تحقیقاتی عدالت کی حیثیت
رپورٹ کا تجزیہ وتبصرہ کرتے ہوئے ناگزیر ہے کہ اس رپورٹ کی حیثیت مشخص کر لی جائے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگرچہ اس عدالت کو کارروائی چلانے کے لئے ہائی کورٹ کے