اعتمادی کا اظہار کیا۔ وہ چلے گئے۔ تو ہم ایسی بداعتمادی کی فضا میں کام کرنے کی مشکلات پر غور کر رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ملک لعل خاں صاحب نے جلسہ میں نیا گل کھلایا۔ لوگوں کو ہمارے خلاف جھوٹ بھڑکایا۔ اس واقعہ کے بعد تو گویا ہمارے خلاف منظم جھوٹ کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ کبھی کہا گیا کہ احرار مسجد کو سکھوں سے لینے کے حق میں نہیں ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ وہ گورنمنٹ کے ہتھے چڑھ گئے۔ عوام کو اندر ہی اندر بھڑکایا گیا۔ بالآخر حکومت نے مولانا ظفر علی، ملک لعل خاں، سید حبیب وغیرہ کو نظر بند کر لیا۔ پھر تو اخبار زمیندار نے نت نیا جھوٹ تصنیف کرنے کا معمول کر لیا۔ سرکاری فریق نے اندر ہی اندر مسلمانوں کو ابھارا کہ اگر کوئی اقدام کرو تو مسجد ضرور مل جائے گی۔ ان علانیہ اور خفیہ ریشہ دوانیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی دروازہ کے باہر گولی سے کئی ایک مسلمان شہید ہوئے۔ یہ ساری داستان درد مولانا مظہر علی صاحب نے خوفناک سازش کے نام سے کتابی صورت میں شائع کی ہے۔ اس لئے سارے واقعات کی تفصیل اس کتاب سے معلوم ہو سکتی ہے۔ ہم نے ہر چند چاہا کہ مسلمان صورتحال کا صحیح جائزہ لیں اور ایسے اقدامات سے بچ جائیں جس کا نتیجہ کچھ نہ ہو۔ جتنا ہم نے روکنا چاہا اتنا ہی غلط فہمیوں کا شکار بنالے گئے۔
مرزائیوں کی شرارت
احرار پر ایسا ابتلاء کا زمانہ آیا کہ شاید ہی کسی جماعت پر آیا ہو۔ مسلمانوں کو ہمارے خلاف بھڑکانے کا اہم کام مرزائیوں نے سرانجام دیا۔ روپے کو پانی کی طرح بہایا۔ اخبارات کو مالی مدد پہنچائی گئی۔ افراد کو وظائف دئیے گئے اور سات سو کے قریب مرزائی قادیان سے لاہور، امرتسر اور بڑے بڑے مقامات پر خاص ہدایات دے کر بھیجے گئے۔ تاکہ احرار کے دشمن اسلام اور ملت کے غدار ہونے کا پروپیگنڈہ کریں۔ اتنی کثیر تعداد میں ہمارے خلاف اشتہارات شائع کئے گئے کہ شاید ہی ہندوستان میں کسی جماعت کے خلاف اتنی اشتہار بازی ہوئی ہو۔ اس طوفانی مخالفت کا مقابلہ آسان نہ تھا۔ خصوصاً جب کہ سرکاری درباری لوگوں کا اثرورسوخ اس سارے پروپیگنڈہ کی پشتیبانی کر رہا ہو۔ ضرورت کے مطابق پیشین گوئی کرنا موجودہ خلیفہ نے باپ سے سیکھا ہے۔ احرار کے خلاف بڑے زور سے جھوٹی پیشین گوئیاں شائع کی گئیں اور مرزابشیرالدین نے احرار کو تباہ کرنے کے لئے اتنا روپیہ خرچ کر دیا۔ جس سے جماعت مرزائیہ تڑپ اٹھی۔ قادیان میں کانا پھوسی شروع ہوگئی اور اس کے خلاف جماعت میں ہی محاذ بن گیا۔ اس لئے اپنے اس خرچ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے بہت کچھ تسلیم کرنا پڑا۔ ہر مرزائی کو سمجھایا گیا تھا کہ ہندوستان میں