پھر مرزاقادیانی اپنی کتاب کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’خداتعالیٰ کا یہ فقرہ کہ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے عبدالحکیم خاں کے اس فقرہ کا رد ہے کہ جو مجھے کاذب اور شریر قرار دے کر کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ گویا میں کاذب ہوں اور وہ صادق اور وہ مرد صالح ہے اور میں شریر اور خداتعالیٰ اس کے رد میں فرماتا ہے کہ جو خدا کے خاص لوگ ہیں۔ وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں۔ ذلت کی موت اور ذلت کا عذاب ان کو نصیب نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہو تو دنیا تباہ ہو جائے اور صادق اور کاذب میں کوئی امر خارق نہ رہے۔‘‘
ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار تیرے آگے ہے۱؎ پر تو نے وقت کو نہ پہچانا نہ دیکھا نہ۲؎ جانا۔
رب فرق بین صادق وکاذب
انت تریٰ کل مصلح وصادق۳؎
المشتہر: مرزاغلام احمد مسیح موعود قادیانی
۱۶؍اگست ۱۹۰۶ئ، مطابق ۲۴؍جمادی الثانی ۱۳۲۴ھ
(حقیقت الوحی، خزائن ج۲۲ ص۴۰۹تا۴۱۱)
اﷲ تبارک وتعالیٰ کا کذاب نبی کے متعلق اٹل فیصلہ
مرزاغلام احمد قادیانی نے مندرجہ بالا اشتہار (جون ان کی آخری الہامی کتاب حقیقت الوحی کے ص۳۹۲ کے اگلے صفحے پر درج ہے) اس میں صادق اور کذاب کا فیصلہ رب عادل کی کچہری میں پیش کرتے ہوئے یہ الہامی الفاظ لکھے۔
۱؎ ’’یہ حاشیہ بھی مرزاقادیانی کی کتاب کا ہے۔ مرزا کا تحریر کردہ اس فقرہ میں عبدالحکیم خاں مخاطب ہے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار سے آسمانی عذاب مراد ہے کہ جو بغیر ذریعہ انسانی ہاتھوں کے ظاہر ہوگا۔‘‘
۲؎ ’’یعنی تو نے یہ غور نہ کی کہ کیا اس زمانہ میں اور اس نازک وقت میں امت محمد کے لئے کسی دجال کی ضرورت ہے یا کسی مصلح اور مجدد کی۔‘‘
۳؎ ’’یعنی اے میرے خدا صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلا تو جانتا ہے کہ صادق اور مصلح کون ہے۔ اس فقرہ الہامیہ میں عبدالحکیم خاں کے اس قول کا رد ہے جو وہ کہتا ہے کہ صادق کے سامنے شریر فنا ہو جائے گا۔ پس چونکہ وہ اپنے تئیں صادق ٹھہراتا ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تو صادق نہیں ہے میں صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھلاؤں گا۔‘‘