فصل اوّل)‘‘ {جو دین بدل دے اس کو قتل کر دو۔}
اور رسول اﷲﷺ نے معاذؓ کو یمن بھیجا۔ وہاں وہ ابو موسیٰؓ کو ملے۔ ان کے پاس ایک شخص مشکیں باندھے پڑا ہوا تھا۔ معاذؓ ابھی سواری سے نہیں اترے تھے کہ فرمایا یہ کون ہے؟
کہا یہ دین سے پھر گیا ہے۔ فرمایا واﷲ میں سواری سے نہیں اتروں گا۔ جب تک یہ قتل نہ کیا جائے۔ رسول اﷲﷺ کا حکم ہے۔ ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ جب قتل کر دیا گیا تو پھر سواری سے اترے۔ یہاں دین بدلنے پر قتل کا حکم ہورہا ہے اور مسٹر محمد باقر نے بغاوت کی شرط ساتھ رکھ دی اور اس بناء پر مرتد کی تعریف بدل دی۔ حالانکہ بغاوت کا مسئلہ اس سے الگ۱؎ ہے اور اس میں بھی قتل ہے۔ مسٹر محمد باقر نے خلط ملط کر کے ایک ہی کر دیا۔ انا ﷲ! خدا ان کو سمجھ دے اور ہدایت کرے کہ ایسے مسائل میں خود دخل دینے کی بجائے ان کو اہل علم کے حوالے کر دیں۔
بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قتل مرتد آیت کریمہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کے خلاف ہے۔ حالانکہ ’’لا اکراہ‘‘ کے معنی ہیں کہ دین منوانے میں کسی پر جبر نہیں اور قتل مرتد دین منوانے پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس بناء پر ہوتا ہے کہ دوسرے کے دلوں میں شکوک نہ پیدا ہوں اور کفر کا راستہ نہ کھلے۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے۔ ’’والحمد ﷲ رب العالمین‘‘
حکومت مرزائیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے
از نقاش پاکستان علامہ اقبالؒ
علامہ اقبالؒ نے مسلمانوں کے ایک مذہبی ادارہ انجمن حمایت اسلام لاہور کو مرزائیت سے پاک کیا تھا اور کشمیر کمیٹی کی رکنیت اس وقت تک قبول نہ کی جب تک کہ اس کا صدر مرزامحمود قادیانی رہا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے اس وقت کی فرنگی حکومت سے جو خود فتنہ مرزائیہ کی بانی تھی اور یہ اس کا خود کاشتہ پودا تھا۔ مطالبہ کیا کہ وہ مرزائیوں کو ایک الگ جماعت تسلیم کرے۔ چنانچہ کتاب ’’حرف اقبال‘‘ سے عبارت کا ضروری حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
’’انسان کی تمدنی زندگی میں غالباً ختم نبوت کا تخیل سب سے انوکھا ہے۔‘‘
’’اس کا صحیح اندازہ مغربی اور وسط ایشیا کے مؤبدانہ تمدن کی تاریخ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے۔‘‘
۱؎ بغاوت اور ارتداد میں دو طرح سے فرق ہے۔ ایک یہ کہ ارتداد میں قتل واجب ہے اور بغاوت میں حاکم کو اختیار ہے۔ دوم بغاوت مسلمان کو بھی شامل ہے۔