دوسرا نظریہ
یہ تحریک دراصل احرار کی ہے۔
اس پر یہ سوال ہے کہ جب مسئلہ ختم نبوت پوری ملت اسلامیہ کا مشترکہ ہے اور اسی مسئلہ کا تقاضہ ہے کہ وزارت خارجہ تبدیل ہو اور مرزائیت اقلیت قرار پائے تو پھر اس میں احراریوں کی کیا خصوصیت رہی۔ اسی لئے تمام جماعتیں اس میں شریک ہوگئیں۔ یہاں اقتدار غیر اقتدار کا سوال نہیں۔ بلکہ پاکستان کے متعلق حکومت اسلامی یا غیر اسلامی کا مسئلہ پیش نظر ہے۔ جس پر غور کرنا حکومت پاکستان کا اولین فرض ہے۔ تاکہ اپنے اسلامی ہونے کا ثبوت پیش کر سکے۔
خلاصہ یہ کہ مسئلہ ختم نبوت بے شک مذہبی چیز ہے اور موجودہ تحریک سیاسی۔ لیکن جب حکومت اسلامی ہے اور اسلام خود ایک مذہب ہے تو پھر ایک کو دوسرے سے جدا کیسے کر سکتے ہیں۔
اصل میں ایک عام وبا پھیل گئی ہے جو انگریزی دور کی پیداوار ہے کہ مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں اور اسی سے ہماری حکومت متأثر ہے۔ حالانکہ اسلام کا عملی حصہ مجموعہ سیاست ہے۔ جس کے تین شعبے ہیں۔
۱… تہذیب اخلاق، یعنی بندے اور خدا کا معاملہ
۲… تدبیر منزل، گھریلو انتظام
۳… تدبیر ملک، یعنی حکومت کا نظم ونسق۔
اگر حکومت اسلامی نظرئیے کے تحت مرزائیوں سے غیرمسلم والا سلوک کرتی تو نہ کوئی جانی نقصان ہوتا نہ مالی۔ نہ مارشل لا لگانے کی ضرورت پیش آتی۔ لیکن جب حکومت نے اپنے فرض کا احساس نہ کیا تو اس تحریک کے ذریعہ اظہار ناراضگی کیا گیا۔ جس سے حکومت نے یہ سمجھا کہ اس تحریک کا مقصد ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلانا ہے۔ حاشا وکلا!
یہ تو موجودہ تحریک کی طرف سے صفائی پیش کی گئی ہے،۔ لیکن ہمارا ایک مشورہ حدیث نبوی کی روشنی میں اس سے بالا تر ہے۔ جس کا کئی دفعہ ہم وعظوں، تقریروں میں اظہار کر چکے ہیں۔ حضور خاتم النبیینؐ کا ارشاد ہے: ’’عن ابی الدرداء قال قال رسول اﷲﷺ ان اﷲ تعالیٰ یقول انا اﷲ لا الہ الا انا، مالک الملک وملک الملوک قلوب الملوک فی یدی وان العباد اذا طاعونی حولت قلوب ملوکہم علیہم بالرحمۃ والرافۃ وان العباد اذا عصونی حولت قلوبہم بالسخطۃ والنقمۃ فسلموہم سوء العذاب فلا تشغلوا انفسکم علی الملوک ولکن اشغلوا انفسکم بالذکرو