اظہار کیا تھا اور اس طرح وہ گناہ سے پاک ہو چکا تھا۔ لیکن دستاویز ڈی۔زیڈ ۴۰ اس کی تردید کرتی ہے۔ جس سے مرزاقادیانی کی دلّی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔
عدالت عالیہ کی توہین
میں یہاں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس دستاویز کے مضمون سے عدالت عالیہ لاہور کی توہین کا پہلو بھی نکلتا ہے۔
محمد امین کا قتل
محمد امین ایک مرزائی تھا اور جماعت مرزائیہ کا مبلغ تھا۔ اس کو تبلیغ مذہب کے لئے بخارا بھیجا گیا۔لیکن کسی وجہ سے بعدمیں اسے اس خدمت سے علیحدہ کردیا گیا۔ اس کی موت کلہاڑی کی ایک ضرب سے ہوئی۔ جو چودھری فتح محمد گواہ صفائی نمبر۲۱ نے لگائی۔ عدالت ماتحت نے اس معاملہ پر سرسری نگاہ ڈالی ہے۔ لیکن یہ زیادہ غور وتوجہ کا محتاج ہے۔ محمد امین پر مرزا (مرزا محمود قادیانی) کا عتاب نازل ہوچکا تھا اور اس لئے مرزائیوں کی نظر میں وہ مؤقرومقتدر نہیں رہا تھا۔ اس کی موت کے واقعات خواہ کچھ ہوں۔ اس میں کلام نہیں کہ محمد امین تشدد کا شکار ہوا اور کلہاڑی کی ضرب سے قتل کیاگیا۔ پولیس میں وقوعہ کی اطلاع پہنچی۔ لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہ آئی۔ اس بات پر زور دینا فضول ہے کہ قاتل نے حفاظت خود اختیاری میں محمد امین کو کلہاڑی کی ضرب لگائی اور یہ فیصلہ کرنا اس عدالت کا کام ہے۔ جو مقدمہ قتل کی سماعت کرے۔ چوہدری فتح محمد کا عدالت میں بہ اقرار صالح یہ بیان کرنا تعجب انگیز ہے کہ اس نے محمد امین کو قتل کیا۔ مگر پولیس اس معاملہ میں کچھ نہ کر سکی۔ جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مرزائیوں کی طاقت اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ گواہ سامنے آکر سچ بولنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ ہمارے سامنے عبدالکریم کے مکان کا واقعہ بھی ہے کہ عبدالکریم کو قادیان سے خارج کرنے کے بعد اس کا مکان نذر آتش کر دیا گیا اور قادیان کی سمال ٹاؤن کمیٹی سے حکم حاصل کر کے نیم قانونی طریق پر اسے گرانے کی کوشش کی گئی۔
قادیان کی صورت حالات اور مرزاقادیانی کی دشنام طرازی
یہ افسوس ناک واقعات اس بات کی منہ بولتی شہادت ہیں کہ قادیان میں قانون کا احترام بالکل اٹھ گیا تھا۔ آتش زنی اور قتل تک کے واقعات ہوتے تھے۔ مرزاقادیانی نے