حضرت ابن عباسؓ کا مذہب
یعنی روایت مذکورہ سے بظاہر گو یہ مفہوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پر رفع الیٰ السماء سے پہلے ان پر تین روز تک جیسا کہ (درمنثور ج۲ ص۷۶) یا سات ساعتیں جیسا کہ (روح المعانی ج۱ ص۵۵۶) یا تین ساعات جیسے (فتح البیان ج۲ ص۴۹) وغیرہ موت واقع ہوئی ہے۔ لیکن ان کا صحیح مذہب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر موت واقع نہیں۔
’’ھو الصحیح کما قال القرطبی ان اﷲ رفعہ من غیر وفاۃ ولا نوم وھو الاختیار الطبری الروایۃ الصحیحۃ عن ابن عباس کذافی (فتح البیان ج۲ ص۳۴۲، ابن کثیر ج۲ ص۲۲۸، روح المعانی ج۱ ص۵۹۵، ج۲ ص۲۰۲، معالم ج۲ ص۱۶۲)‘‘
’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیہم‘‘ (یعنی جب اﷲتعالیٰ فرمائے گا۔ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری والدہ کو اﷲ کے سوا دو معبود بنالو۔ اس کے جواب میں جو کچھ کہیں گے اس میں یہ بھی کہیں گے) میں نے انہیں نہیں کہا۔ مگر جس کا تونے مجھے حکم دیا کہ عبادت کرو اﷲ کی، جو کہ میرا بھی اور تمہارا بھی پروردگار ہے اور میں ان پر مطلع تھا جب تک میں ان میں رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگہبان تھا۔ تو ہر چیز کا دیکھنے والا ہے۔
(تفسیر فتح البیان ج۳ ص۱۳۳) مصری میں ہے: ’’وانما المعنی فلما رفعتنی الیٰ السماء واخذتنی وافیا بالرفع (ارشاد الساری ج۱ ص۱۱۴، معالم ج۱ ص۳۰۸، مدارک ج۱ ص۲۴۲، جمل ج۱ ص۶۵۸، بیضاوی ج۲ ص۲۱۹، درمنثور ج۲ ص۲۴۹، سراج المنیر ج۱ ص۴۰۵، کتاب الوجیز ج۱ ص۴۲۹، روح المعانی ج۳ ص۴۱۴)‘‘ ہے۔
’’فلما توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الیٰ السماء روی ہذا عن الحسن وعلیہ الجمھور‘‘
خلاصہ یہ کہ توفیتنی کا معنی رفع الیٰ السماء ہے اور یہی مسلک جمہور ہے۔
سوال… اگر عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو پھر اپنی ذمہ داری کی نفی کیوں فرمارہے ہیں۔
جواب… یہ ہے کہ یہ نفی اس وجہ سے نہیں ہے کہ قوم کا کردار آپ کے علم میں نہیں ہے۔ بلکہ اس وجہ سے ہے کہ رفع آسمان کا زمانہ آپ کے فرض منصبی سے باہر ہے۔ کیونکہ آپ قوم