مناصب پر نہیں رہ سکتے؟ کب یہاں دوسرے غیرمسلم عہدہ داروں کے ہٹانے کا سوال اٹھایا گیا؟ غیرمسلم وزیر تک ہمارے مرکز میں رہ چکا ہے۔ کس نے کہا کہ اسے نکال دو؟ ہماری مرکزی اسمبلی میں بھی اور صوبوں کی اسمبلیوں میں بھی غیرمسلم ارکان موجود ہیں۔ کب یہاں کسی نے کہا کہ ان کی رکنیت منسوخ کر دو؟ آئندہ دستور میں غیرمسلموں کو وہ سارے حقوق دئیے جارہے ہیں جنہیں آپ شہریت کے حقوق کہتے ہیں۔ پاکستان میں کب اس کے خلاف کوئی ایجی ٹیشن کیاگیا۔ یا اور کچھ نہیں تو آواز ہی اس کے خلاف اٹھائی گئی؟ علماء خود جانتے ہیںکہ ہمارے ملک کے مخصوص حالات اور تاریخی اسباب اس معاملے میں وسعت برتنے کے متقاضی ہیں اور اسلام کے احکام میں حالات کے لحاظ سے اس طرح کی وسعت کے لئے گنجائش موجود ہے۔ غیرمسلموں کو حکومت میں حصہ دار بنانا قطعی حرام نہیں کر دیا گیا ہے۔ اسی لئے علماء نے عام مسلمانوں نے کبھی وہ سوال چھیڑا ہی نہیں جو کارروائی میں اس شرح وبسط کے ساتھ بار بار چھڑا ہے۔ قادیانیوں کے بارے میں تو باربار یہی کیاگیا کہ ان کے سالہا سال کے رویے سے جو شکایات پیدا ہوئی ہیں۔ ان کو رفع کرنے کے لئے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مگرکارروائی رپورٹ میں بحث کی طنابیں کھینچتے کھینچتے اتنی دور جا پہنچی ہیں کہ اس تاریخی دستاویز کو پڑھ کر ہندو، عیسائی، اجھوت، متوحش ہو جائیں گے کہ اب یہاں پاکستان میں ہماری یہ پوزیشن بننے والی ہے۔ پورا ہندوستان متوجہ ہو گا کہ اچھا اب یہ سلوک پاکستانی ہندوؤں سے ہونے والا ہے۔ دنیا بھر کے ملک کان کھڑے کریں گے کہ مسلمان حکومت پاتے ہی اپنے زیردست غیرمسلموں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنے کی تجویزیں سوچ رہے ہیں اور ان تاثرات کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ علماء (اگرچہ یہ حلقہ ایسا ہے کہ اس کی عزت اور ساکھ ہر ایک کے لئے مباح عام ہے) خود اسلام اور اسلامی دستور بالکل بدنام ہوکر رہ جائیں گے اور پاکستان کے غیرمسلموں، ہندوستان والوں اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے احیائے اسلام کی ہر کوشش کی مزاحمت ہوتی رہے گی۔ حالانکہ عدالت اور ہمارے فاضل ججوں میں سے کسی کا بھی منشاء یہ نہیں ہوگا۔
مسلمان کی تعریف
اسلامی ریاست میں مسلم اور غیرمسلم کے امتیاز سے قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوگیا کہ کسی شخص یا گروہ کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کس طرح ہوگا۔ یوں اس تحقیقات میں مسلمان کی تعریف کا مسئلہ زیربحث آیا اور عدالت نے علماء کے ساتھ غیرعلماء سے بھی اس کو دریافت فرمایا۔ اس تحقیقات اور جرح کے نتائج جس درد مندانہ انداز سے بیان ہوئے ہیں۔ وہ بھی ایک نگاہ توجہ کا تقاضا کرتا ہے۔ پہلے ہم اسے پیش کرتے ہیں۔ پھر اس پر غور کریں گے کہ آیا فی الواقع