ہیں۔ قرأت میں آیا ہے: ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا اذا تمنیٰ‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۴۸، خزائن ج۱ ص۶۵۴،۶۵۵) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے دعویٰ امامت، محدثیت، رسالت اور نبوت کے متعلق جس قدر تشریحات کی ہیں ان کا ماخذ شیعہ حضرات کی کتب وتشریحات ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی کتب میں ان کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ بھولے بھالے مسلمانوں کو یہ معلوم ہو کہ ان مناصب کی جو تشریح اور معارف مرزاغلام احمد قادیانی بیان کر رہے ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو بذریعہ وحی ان پر نازل ہوئے ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ کیا کہ دعویٰ کے ثبوت میں سنت والجماعت کی احادیث پیش کیں اور ان کی تشریح وغیرہ شیعہ روایات کی تقلید وروشنی میں کی اور ان ہر دو مجموعہ احادیث کے سنگم میں خلط ملط سے انہوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجدد، محدث، امام، نبی اور رسول کے دعویٰ کئے اور مسلمانوں کو گمراہ کیا۔
دیگر موضوع احادیث، مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ
اور الہام کہ وہ اہل فارس ہیں
مرزاغلام احمد قادیانی مغل تھے اور تعلق برلاس قوم سے تھا۔ جس کے متعلق انہوں نے پہلے لکھا کہ: ’’ہماری قوم برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک (ہندوستان) میں سمرقند سے آئے تھے۔‘‘
(کتاب البریہ حاشیہ ص۴۴، خزائن ج۱۳ ص۱۶۳)
اور اس وقت سمرقند روسی ترکستان میں تھا۔ لیکن جب مرزاغلام احمد قادیانی کو معلوم ہوا کہ بعض احادیث میں ہے کہ مہدی موعود اہل فارس میں سے آئے گا تو فوراً ایک الہام وضع کیا اور لکھا کہ: ’’یاد رہے کہ اس خاکسار کا خاندان بظاہر مغلیہ خاندان ہے۔ کوئی تذکرہ ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ بنی فارس کا خاندان تھا۔ ہاں بعض کاغذات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری بعض دادیاں۱؎ شریف اور مشہور سادات میں سے تھیں۔ اب خدا کے کلام سے معلوم
۱؎ جس طرح اہل فارس نے اپنا رشتہ رسول مقبولﷺ سے قریب تر کرنے کے لئے حضرت حسینؓ کی اولاد کو ساسانی الاصل قرار دیا۔ کیونکہ بعض مورخین نے لکھا ہے (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)