ساتھ ہو تو اس کے معنی ختم کرنے والے کے ہیں اور اگر خاتم زبر کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مہر کے ہیں اور نبوت چونکہ ختم نہیں ہوئی۔ اس لئے حضرت علیؓ نے زبر کے ساتھ پڑھانے کی ہدایت فرمائی۔ حالانکہ یہ وجہ نہ تھی۔ بلکہ ان کی قرأت زیر کے ساتھ تھی۔ اس لئے زبر کے ساتھ پڑھنے کی ہدایت فرمائی۔ ورنہ خاتم اگر زبر کے ساتھ ہو اور اس کے معنی مہر کے ہوں۔ تب بھی اس کا مطلب وہی ہے۔ جو زیر کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اوپر ذکر ہوچکا ہے اور چونکہ زیر کے ساتھ بھی قرآن مجید کی ایک قرأت ہے۔ اس لئے دونوں کا مطلب ایک ہونا ضروری ہے۔ تاکہ آپس میں مخالفت نہ ہو۔ لیکن مرزائیوں کو اس کی کیا پرواہ۔ وہ مغالطے دے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ خدا ان فتنوں سے بچائے۔ آمین!
مسلمان اور مرتد کی تعریف
تحقیقاتی عدالت میں مسلمان کی تعریف میں بھی بڑا اختلاف ہوا ہے۔ یہاں تک کہ عدالت کے بڑے رکن مسٹر محمد منیر نے یہ کہہ دیا کہ دو علماء بھی مسلمان کی تعریف پر متفق نہیں ہوئے۔ (اخبار آثار مورخہ ۲۶؍صفر ۱۳۷۳ھ، مطابق ۵؍نومبر ۱۹۵۳ئ)
حالانکہ یہ بنیادی چیز ہے اور بنیادی چیز میں اختلاف اصل شے کو متزلزل کر دیتا ہے۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ دنیا میں اسلام ایک ایسا محمل سا لفظ ہے۔ جس کے معنی نہیں اور اس سے بڑھ کر کسی مذہب کی کمزوری کیا ہوگی کہ اس کے اندر حقانیت کے دلائل تو کجا اس کی تصویر ہی سامنے نہیں۔
یہ دراصل ہماری ا سلام سے دوری۔ دین سے غفلت اور دنیوی تعلیمات کو اندازہ سے زیادہ اہمیت دینے کا نتیجہ ہے۔ ورنہ اسلام تو ایسی واضح شے ہے جو آفتاب آمد دلیل آفتاب کی مثال ہے۔ یہ کیوں اخفاء میں رہ سکتا ہے؟ کون نہیں جانتا کہ قرآن مجید کلام الٰہی ہے۔ اس کی ایک آیت بلکہ ایک لفظ کا انکار بھی کفر ہے اور کلام الٰہی ماننے سے مسلمان کی تعریف سامنے آجاتی ہے۔ قرآن مجید میں ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ بھی ہے اور ’’محمد رسول اﷲ‘‘ بھی۔ اب جو اس سے ایک کا منکر ہو وہ بالاتفاق کافر ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں خاتم النبیین بھی ہے۔ اس کا منکر بھی کافر ہے۔ ایسے عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا عین خدا کہنے کی وجہ سے کافر ہیں۔ اس بناء پر جو محمد رسول اﷲﷺ کو عین خدا کہے یا آپؐ میں خدائی صفات مانے۔ یا اس کے نور سے تھا۔ کہے تو وہ بھی عیسائیوں کی