مرزاغلام احمد قادیانی کے انتقال کے بعد اس جماعت کا پہلا سربراہ حکیم نورالدین بنا۔ جس کا انتقال ۱۹۱۴ء میں ہوا۔ اس وقت تک بھی جماعت قادیان اور جماعت لاہور کوئی الگ الگ جماعتیں نہ تھیں۔ اس چھ سالہ عرصے میں بھی محمد علی لاہوری، خواجہ کمال الدین، صدرالدین اور لاہوری پارٹی کے تمام افراد مرزاغلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول کہتے اور مانتے رہے۔ ۱۹۱۳ء میں محمد علی لاہوری اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اخبار پیغام صلح میں حلفیہ بیان شائع ہوا جس میں انہوں نے لکھا: ’’ہم حضرت مسیح موعود ومہدی معہود (مرزاغلام احمد قادیانی) کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ئ)کو کیا مانتے ہیں یا کیا سمجھتے ہیں؟ بلکہ ہمیشہ یہی دیکھا جاسکتا ہے کہ مدعی اپنے بارے میں کیا کہتا ہے؟ کیونکہ مدعی کا قول سب سے مضبوط دلیل ہوتی ہے:
’’مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‘‘
مثلاً اگر ایک شخص ڈاکٹر ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں اور فلاں میڈیکل کالج سے میں نے ’’ایم بی بی ایس‘‘ کیا ہے۔ دوسرا اس کو کہے کہ نہیں صاحب آپ ڈاکٹر نہیں ہیں۔ انجینئر ہیں۔ ظاہر ہے کہ بات مدعی کی مانی جائے گی اور اس کو ڈاکٹر ہی سمجھا جائے گا۔ جب مرزاغلام احمد قادیانی کا جھوٹا مدعی نبوت ہونا ثابت ہوچکا ہے تو اسے مجدد، مصلح عالم یا عام مسلمان ماننا کھلا ہوا کفر اور زندقہ ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی شخص ابوجہل کو کہے کہ وہ مسلمان تھا۔ نعوذ باﷲ!
پوری دنیا کے علماء اور مسلمانوں کے نزدیک مرزاغلام احمد قادیانی خود اس کے ماننے والے