کے قاری اور حفاظ تھے۔ جن میں مسجد قبا کے امام، چار بڑے قاریوں میں ایک بڑے قاری حضرت سالم مولیٰ حذیفہؓ، حضرت عمر بن خطابؓ کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطاب، حضور اکرمؓ کے خطیب ثابت بن قیس بن شماس انصاری، مشہور صحابہ حضرت طفیل بن عمرو دوسی اور حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہم اجمعین شامل ہیں۔ اسوۂ رسول اکرمﷺ، اسوۂ صدیقیؓ اور اسوۂ صحابہ کرامؓ ہمارے سامنے ہے۔ حضور اکرمﷺ نے مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ نامی معاہدہ کیا۔ مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد یہودیوں سے میثاق مدینہ ہوا۔ عیسائیوں کا مشہور وفد، وفد نجران مسجد نبوی میں آکر ٹھہرا۔ مگر آپؐ نے جھوٹے مدعی نبوت اسود عنسی، حضرت صدیق اکبرؓ ودیگر صحابہ کرامؓ نے مسیلمہ کذاب سے کوئی صلح نہیں کی اور کسی قسم کی نرمی نہیں برتی اور نہ ہی کوئی وفد اس کو سمجھانے یا تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا۔ اسی پربس نہیں۔ بلکہ مسیلمہ کذاب کے بعد جس بدبخت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اس کا یہی حشر ہوا۔ مشہور عالم قاضی عیاضؒ اپنی کتاب ’’الشفائ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مدعی نبوت حارث کو قتل کر کے سولی پر لٹکایا تھا اور بے شمار خلفاء اور سلاطین نے اس قماش کے لوگوں کے ساتھ یہی سلوک کیا اور اس دور کے تمام علماء نے بالاجماع ان کے اس فعل کو صحیح اور درست قرار دیا اور جو شخص مدعی نبوت کے کفر میں اجماع کا مخالف ہو وہ خود کافر ہے۔‘‘ (الشفاء ج۲ ص۲۵۷)
انیسویں صدی کے اوائل میں مغربی استعمار اسلامی ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اپنی سرپرستی میں بہت سی باطل تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ جن میں ایک تحریک ’’قادیانیت‘‘ ہے۔ جس کا بانی مرزاغلام احمد قادیانی ہے۔ اس نے اسلام کا صحیح راستہ چھوڑ کر ارتداد کا راستہ اختیار کیا اور نہ صرف نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ حق تعالیٰ شانہ کی شان میں ہرزہ سرائی کا بھیانک مظاہرہ کیا۔ حضور اکرمﷺ کی توہین کی۔ اپنے آپ کو بعینہ محمد رسول اﷲ کہا اور آپؐ کی شان، نام ومنصب اور مرتبہ سب پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کی توہین وتحقیر کی۔ وحی نبوت کا دعویٰ کیا۔ قرآن کریم کو منسوخ قرار دیا۔ اپنی جعلی وحی کا نام قرآنی نام پر ’’تذکرہ‘‘ رکھا۔ اپنی خود ساختہ وحی کا قرآن کی طرح ہر خطا سے پاک سمجھا۔ قرآن پاک میں لفظی اور معنی تحریفات کیں اور اسلام کو نعوذ باﷲ مردہ اور لعنتی قرار دیا۔ صحابہ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کے بارے میں بازاری زبان استعمال کی اور ان پر طعن وتشنیع کے نشتر چلائے۔ مرزاقادیانی نے اپنے ماننے والے مرتدوں کی جماعت کو ’’صحابہ رسول‘‘ کے نام سے پکارا۔ اپنی بیوی کو ’’ام المؤمنین‘‘ کے نام سے تعبیر کیا۔ اپنے گھر والوں کو ’’اہل بیت‘‘ کا نام دیا۔ اصحاب الصفہ کے مقابلہ میں ’’اصحاب الصفہ‘‘ رسول مدنی کے مقابلے میں ’’رسول قدنی‘‘ گنبد خضراء کے مقابلے میں گنبد بیضا، روضہ اطہر کے مقابلے میں روضہ مطہر، تین سو تیرہ بدری صحابہ کے مقابلے میں اپنے تین سو تیرہ چیلوں کی فہرست تیار کی۔ جہاد کو حرام، انگریز کی اطاعت کو فرض قرار دیا۔