٭…
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی۔ جب تک ۳۰ کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں۔ جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اﷲ کا رسول ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
نیز ارشاد فرمایا:
٭…
’’قریب ہے کہ میری امت میں ۳۰ جھوٹے پیدا ہوں، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (ابوداؤد، ترمذی)
ان دو ارشادات میں حضرت محمد رسول اﷲﷺ نے ایسے مدعیان نبوت کے لئے ’’دجال وکذاب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا معنی ہے کہ وہ لوگ شدید دھوکے باز اور بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ہوںگے۔ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں پھنسائیں گے۔ لہٰذا امت کو خبردار کر دیا گیا کہ وہ ایسے عیار ومکار مدعیان نبوت اور ان کے ماننے والوں سے دور رہیں۔ آپؐ کی اس پیش گوئی کے مطابق ۱۴۰۰سوسالہ دور میں بہت سے کذاب ودجال مدعیان نبوت کھڑے ہوئے۔ جن کا حشر اسلام کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے خوب جانتے ہیں۔ آپؐ کی زندگی کے آخری دور میں اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب نے دعویٰ نبوت کیا۔ اسود عنسی نے کافی قوت پکڑ لی اور اس کا فتنہ یمن میں پھیل گیا۔ خاتم الانبیائﷺ نے اپنے ایک صحابی فیروز دیلمیؓ (جو یمن میں رہتے تھے) کو خط ارسال فرمایا کہ اس فتنہ کا مقابلہ کرو اور اسود عنسی کا خاتمہ کر دو۔ چنانچہ آپﷺ کے انتقال سے کچھ ہی عرصہ پہلے حضرت فیروز دیلمیؓ نے موقع تاک کر اسود عنسی کو تہہ تیغ کر کے اس کے فتنے کو ختم کر دیا۔ جس رات اسود عنسی مارا گیا۔ اس کے اگلے روز آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو ان الفاظ میں خوشخبری سنائی: ’’قتل الاسود العنسی البارحہ قتلہ رجل مبارک من اہل بیت مبارکین، فقیل لہ من یا رسول اﷲ فقال فیروز فاز فیروز‘‘ {گذشتہ رات اسود عنسی قتل کر دیا گیا۔ اس کو مبارک گھر والوں میں سے ایک مبارک شخص نے قتل کر دیا۔ آپؐ سے پوچھا گیا یا رسول اﷲ! یہ کام کس نے انجام دیا؟ آپؐ نے فرمایا فیروز نے۔ فیروز کامیاب ہوگیا۔}
آپؐ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد مسیلمہ کذاب کا فتنہ بھی زور پکڑ چکا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی معیت میں صحابہ کرامؓ کا ایک لشکر اس کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔ یمامہ کے میدان میں صحابہ کرامؓ اور مسیلمہ کذاب کے لشکر کے درمیان ایک خوفناک اور خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں صحابہ کرامؓ نے ۲۸ہزار مسیلمہ کذاب کے ماننے والوں کو مع مسیلمہ کذاب کے تہہ تیغ کیا۔ جب کہ صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی تعداد مرتدین کے مقابلہ میں شہید ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے کہ آپؐ کے مدنی دس سالہ دور میں جو جہاد ہوئے۔ ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد ۲۵۹ ہے۔ جب کہ تحفظ ختم نبوت کے سلسلے میں مرتدین کا مقابلہ کر کے شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ اجمعین کی تعداد ۱۲۰۰ ہے۔ جس میں سے ۷۰ بدری اور ۷۰۰ صحابہ کرامؓ قرآن